جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے والوں کا مقابلہ کریں گے‘ سیاسی ہلچل کیوں اور کیسے شروع ہوئی وقت پر بتائوں گا: نوازشریف
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی + نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نواز شریف نے تحریک انصاف، عوامی تحریک کی جانب سے اپنے استعفیٰ کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے اور میں اپنے حلف پر کبھی آنچ نہیں آنے دونگا‘ جمہوریت کا راستہ روکا گیا تو سب مل کر مقابلہ کرینگے ہم احتجاج سے گھبرانے والے نہیں پہلے بھی ایسی اونچ نیچ دیکھی ہے‘ کبھی مشکلات کا رونا بھی نہیں رویا‘ پارلیمنٹ کا جمہوریت پر اعتماد پوری قوم کی فتح ہے‘ بحران وقتی ہے ٹل جائیگا۔ حکومت کا احتساب بالکل ہونا چاہئے‘ حکومتیں اور وزراء اعظم آتے جاتے رہتے ہیں اصل چیز آئین اور جمہوریت کی بالادستی اور ملک کا مستقبل ہے‘ اچھے کاموں پر ساتھ بھی دینا چاہئے‘ سیاسی ہلچل کیسے اور کیوں شروع ہوئی مناسب وقت آنے پر بتاؤنگا اس پر ایوان میں بحث ہونی چاہئے کہ معاملہ کیوں اور کیسے شروع ہوا۔ جب صورتحال کسی طرف لگے گی تو پھر بتاؤنگا کہ سیاسی ہلچل کیسے شروع ہوئی۔ پوری قوم انتخابی اصلاحات چاہتی ہے‘ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے سامنے تمام اصلاحاتی ایجنڈا آنا چاہئے‘ 12 اکتوبر 1999ء کی طرح اس بار بھی استعفٰی نہیں دونگا ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوں۔ احتجاج سے ملکی ترقی کا سفر بری طرح سے متاثر ہوا ہے‘ سینکڑوں اربوں کا نقصان ہوچکا ہے‘ ہم پہلے سے زیادہ تیزی سے ترقی کا سفر شروع کرینگے‘ چین سے لاہور کراچی موٹروے کی بات ہوگئی‘ گوادر‘ بلوچستان کی ترقی‘ داسو ڈیم کے انقلابی منصوبوں پر تیزی سے کام ہوگا‘ میں ملک کے تمام طبقوں کا آئین‘ قانون اور جمہوریت کی بالادستی کیلئے ساتھ دینے پر شکر گزار ہوں۔ حکومت اور عہدہ آنی جانی چیز ہے جمہوریت رہنی چاہئے حکومت احتساب کیلئے تیار ہے انتخابی اصلاحات کرینگے۔ وہ بدھ کو قومی اسمبلی سے خطاب کررہے تھے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم نواز شریف سے پارلیمنٹ ہاؤس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں نے ملاقات کی اور وزیراعظم کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی اور وزیراعظم سے ہر طرح کے دباؤ کے باوجود مستعفی نہ ہونے کا مطالبہ کیا۔ ملاقات کرنے والوں میں خورشید شاہ کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن، فاروق ستار، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیر پاؤ اور دیگر شامل تھے۔ اس سے قبل جب وزیراعظم ایوان میں آئے تو تمام حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر وزیراعظم کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری ساری جدوجہد جمہوریت‘ آئین کی بالادستی کے لئے ہے‘ اس پورے ایوان کا اتحاد ہونا بہت بڑی بات ہے کہ ہم جس نظریہ پر یقین رکھتے ہیں یہ اس کی فتح ہے بات کسی کی ذات اور حکومتوں کی نہیں۔ وزیراعظم آتے جاتے رہتے ہیں اصل بات اس نظام ‘ جمہوریت کی بالادستی کا برقرار رہنا اور جمہوریت کی فتح ہونا ہے۔ جس طرح سے منتخب ایوان کے اندر دائیں اور بائیں کی تمیز رکھے بغیر آئین ا ور جمہوریت کی بالادستی کی قرارداد منظور کی اور دس میں سے نو جماعتوں نے ہاتھ کھڑا کرکے اس کی حمایت کی پاکستان کی جمہوری تاریخ میں شاید ہی اس سے پہلے کوئی ایسی مثال ہوگی میں اس پر پورے ایوان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ میں نے آئین سے پاسداری کا حلف اٹھایا ہے اور میں اپنے حلف پر کبھی آنچ نہیں آنے دونگا۔ انہوں نے آئین اور جمہوریت کی بالادستی کی حمایت پر تمام سیاسی جماعتوں‘ وکلائ‘ سول سوسائٹی‘ صحافیوں‘ دانشوروں‘ تاجروں‘ اقلیتوں اور معاشرے کے تمام طبقات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ آئین و قانون کی بالادستی کا یہ سفر جاری رہے گا اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی جائے گی۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم جس سفر پر چل رہے ہیں وہ پاکستان کے روشن مستقبل کا سفر ہے‘ آئین اور جمہوریت کی جگمگاتی شمعیں پاکستان کو روشن کرتی رہیں گی اور کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا اور اگر کسی نے رکاوٹ ڈالنا چاہی تو ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ترقی کا سفر اسی طرح نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اسے مزید تیز کیا جائے گا ہم گھبرانے والے نہیں ہم نے پہلے بھی اونچ نیچ دیکھی ہے‘ مشکلات بھی دیکھی ہیں اور ہم نے کبھی مشکلات کا رونا نہیں رویا۔ انہوں نے کہا سیاسی ہلچل کیوں اور کیسے شروع ہوئی اس پر ایوان میں بحث ہونی چاہئے۔ وقت آنے پر بتائوں گا یہ ہلچل کیوں اور کیسے شروع ہوئی کس نے کی اور کیوں شروع کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کے بعد جب وہ شوکت خانم ہسپتال میں زیر علاج عمران خان سے ملنے گئے تو انہوں نے مجھے مبارکباد دی اور تعمیری اپوزیشن کے کردار‘ پاکستان کے ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ساتھ دینے کا یقین دلایا تھا پھر ہم نے اخبارات میں پڑھا کہ عمران خان نے کہا کہ ہمارے نتائج پر تحفظات ہیں لیکن ہم انہیں تسلیم کرتے ہیں تو اس پر بھی ہمیں خوشی ہوئی اور ہم نے بھی یہی کہا کہ چلیں ٹھیک ہے ہماری خواہش ہے مل کر چلنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں عمران خان کی دعوت پر بنی گالہ ان کے گھر چل کر گیا میرے جانے کے بعد انہوں نے پریس سے بہت اچھی اور مثبت گفتگو کی اچھے کام میں تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ معزز ایوان کا یہ پورا حق ہے کہ حکومت اگر صحیح کام کرے تو ساتھ دے ورنہ محاسبہ کرے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا احتساب ہونا چاہئے لیکن اچھے کام پر ساتھ بھی دینا چاہئے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ہم نے آئندہ آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچنا ہے اگر آج اصلاحات ہوں گی تو آنے والا کل بہتر ہوگا۔ ہم نے اصلاحات کے لئے 33رکنی کمیٹی بنا دی ہے اور میں کہوں گا کہ اصلاحات کا تمام ایجنڈا اس کمیٹی کے سامنے آنا چاہئے اور اس میں سب کو اپنی رائے دینی چاہئے۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان ترقی کی راہ پر چل نکلا تھا میں یہ نہیں کہتا کہ بہت ترقی کرلی تھی ابھی آغاز ہوا تھا کہ سیاسی ہلچل شروع ہوگئی سٹاک ایکسچینج بیٹھنے سے سینکڑوں ارب کا نقصان ہوا ہے، پاکستانی روپیہ پھر دبائو میں آگیا۔ ان حالات پر کونسا پاکستانی ہوگا جو خوش ہوگا۔ موڈیز نے ہماری ریٹنگ کو منفی سے نکال کر مستحکم میں پہنچایا اب کون چاہے گا کہ یہ دوبارہ منفی پر چلی جائے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہونے سے اقتصادی ترقی کا سفر متاثر ہوا ہے۔ ہمارے شراکت دار کہتے ہیں کہ ان حالات میں یہاں ہماری سرمایہ کاری کیسے محفوظ ہوگی۔ ہم نے اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے اور دونوں جماعتوں سے مذاکرات کئے لیکن ایسے ایسے مطالبات کئے جارہے ہیں جن کو پورا کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سارا وقتی مرحلہ ہے یہ وقت گزر جائے گا ۔ ہم پہلے سے زیادہ تیزی سے ترقی کے سفر پر گامزن ہوں گے۔ انشاء اﷲ پاکستان ترقی کرے گا‘ بیروزگاری ختم ہوگی‘ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا‘ لوگوں کو ٹرانسپورٹ‘ دو وقت کی روٹی‘ صاف پانی‘ صحت اور سڑکوں سمیت ہر سہولت ملے گی اور ہم اس جانب چل رہے ہیں لیکن یہ سب کچھ ایک دن میں کیسے ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس تو ایک بڑا بجلی گھر لگانے کے بھی پیسے نہیں جبکہ ہم نے دس ہزار چار سو میگا واٹ بجلی بنانے کے لئے قرضوں کا اہتمام کیا اور یہ تمام منصوبے منظور ہوچکے ہیں تاہم اس ترقی کے سفر کی راہ میں جو خلل ڈالا جارہا ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے پر ہمارا موقف واضح ہے۔آج دباؤ پر استعفیٰ لے لیا تو کل کیا ہو گا اور اس کے بعد پھر کوئی مستقل وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو ان کا حق سمجھ کر انہیں احتجاج کا موقع دیا گیا، حکومت کی جانب سے برداشت کا یہ عملی نمونہ ہے اور میرے خیال کے مطابق احتجاج کرنے والوں کو مزید موقع ملنا چاہئے۔ پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ ممکن نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم نواز شریف سے ایم کیو ایم کے وفد نے ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ متحدہ کے وفد نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ دھرنے دینے والوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کا راستہ اختیار کریں اور یہ نہ دیکھا جائے کہ کیا روایت قائم ہوگی۔ اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرنے والے وفد میں خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، بابر غوری اور حیدر عباس رضوی شامل تھے جبکہ وزیراعظم کی معاونت کیلئے وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراطلاعات پرویز رشید بھی ملاقات میں موجود تھے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کوشش کی ہے کہ اس وقت ملک جس بحران میں ہے اس کا حل نکالا جائے۔ وہ احتجاج کرنے والی جماعتوں اور حکومت سے مسلسل اپیل کررہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں، اسی غرض سے ہم نے پاکستان عوامی تحریک، چوہدری شجاعت حسین، شیخ رشید احمد، جاوید ہاشمی، مولانا فضل الرحمان، خورشید شاہ اور وفاقی وزرا سے ملاقات کی۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہم ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ اس وقت یہ نہ دیکھا جائے کہ کیا روایت قائم ہوگی۔ ملاقات میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنوں اور حکومت کی طرف سے مذاکرات کی کوششوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفد نے وزیراعظم کو بحران کے حل کے لئے پارٹی قائد الطاف حسین کی مساعی اور ایم کیو ایم کے عمران خان، علامہ طاہر القادری اور دوسری سیاسی قیادت سے مذاکرات کے بارے میں بتایا۔ خواجہ آصف، سینیٹر اسحاق ڈار اور پرویز رشید بھی ملاقات میں موجود تھے۔ ملاقات کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا کہ ایم کیو ایم نے مشورہ دیا ہے کہ اس وقت یہ نہ دیکھا جائے اس سے کیا روایت قائم ہو گی یا جوطریقہ کار اختیار کیا گیا ہے وہ کس نوعیت کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کھلے دل سے ہماری بات سنی ہے۔