• news

4 بار ہڈیوں کے ڈاکٹر دماغ کی سرجری کر چکے، اب انہیں روکنا ہے، آئین اور جمہوریت کو خطرہ ہے: سپریم کورٹ، شاہراہ دستور کی ایک لین مکمل خالی کرنے کا حکم

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ثناء نیوز+ آن لائن) سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ ہائوس کی جانب آنے والی  اسلام آباد کی شاہراہ دستور کی ایک لین آج مکمل طور پر خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ کے رجسٹرار، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے وکلا کو باہمی کوششیں کرنے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو آج صبح تک عدالتی احکامات کی تکمیل سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں سے شاہراہ دستورکی ایک سائیڈ خالی کرنے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور فریقین کے وکلاء کو ہدایت کی کہ شاہراہ دستور کی ایک طرف مکمل طور پر خالی کرانے کے بعد آج تک رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، مقدمہ کی سماعت آج پھر ہوگی۔ پاکستان عوامی تحریک کے وکیل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ شاہراہ دستور کی ایک طرف جو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ساتھ ہے کو مکمل طور پر خالی کردینگے۔ عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی سمیت دیگر مسائل کا ازخود نوٹس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ضمن میں پٹیشن دائر کرسکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر بارز کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ مقدمہ شاہراہ دستور نہیں بلکہ دستور کا مقدمہ ہے۔ شاہراہ دستور کھولنے کا معاملہ ثانوی ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ احتجاج کا حق سب کو ضرور ہے لیکن کیا مجمع اکٹھا کرکے ایک منتخب وزیراعظم سے زبردستی استعفیٰ لیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر مظاہرین کے مطالبے پر حکومت ختم ہو گئی اور اگر یہ روایت پڑ گئی تو کل کوئی اور جماعت دو لاکھ کا مجمع لے کر اس وقت کی حکومت کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کرے گی۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن گاڑیوں کو روک کر وکلا اور عام لوگوں کی تلاشی لے رہے ہیں جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے شاہراہ دستور سے زیادہ ملکی دستور کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستور اور جمہوریت کو خطرہ ہے۔ انہوں نے ملک میں لگنے والے چار مارشل لاء کا نام لئے بغیر کہا کہ چار مرتبہ ہڈیوں کے ڈاکٹر دماغ کی سرجری کرچکے ہیں  اب انہیں پانچویں بار ایسا کرنے سے روکنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین کو متبادل جگہیں فراہم کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کی طرف سے رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے وکلاء رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے عدلیہ کو مضبوط بنا دیا ہے، عدالت اپنی طاقت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کسی کے آنے یا جانے سے ادارے کمزور نہیں ہوتے۔ جسٹس ثاقب نثار نے فریقین کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدارا آئین کو بچایا جائے اسے بچانے کی ہم سب نے قسم کھائی ہے آئندہ نسلوں کیلئے آئین کو بچایا جائے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آج اگر مظاہرین کے مطالبے پر حکومت ختم ہوگئی تو مستقبل میں کوئی دو لاکھ کا مجمع لے کر آجائے گا اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائیگا۔ احتجاج کو اس سطح تک رکھا جائے کہ دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل سلمان اسلم نے عدالت کی ہدایت پر گذشتہ سماعت پر جاری عدالتی حکم پڑھا جس کے بعد انہوں نے اپنی جانب سے شاہراہ دستور کھولے جانے بارے رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں احتجاج کرنے والی جماعتوںنے شاہراہ دستور اور پریڈ ایونیوسے اپنے دھرنے کسی متبادل مقام پر منتقل کرنے سے انکار کردیا ہے۔ دھرنے کے لئے حکومت کی جانب سے فیض آباد اور سپورٹس کمپلیکس سمیت دیگر متبادل جگہوں کی پیش کش کی گئی تھی تاہم دونوں جماعتوں نے دھرنوں کی جگہ تبدیل کرنے سے انکار کیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے جواب کے ساتھ حکومت کی جانب سے جلسے کے لئے دیئے گئے اجازت نامے کی کاپی بھی لف کی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ 26اگست کی صبح بھی انہوں نے عمران خان کے وکیل احمد اویس سے رابطہ کیا تھا عدالت نے کہاکہ آپ نے عدالتی حکم کے مطابق رپورٹ جمع نہیں کرائی ہمارا حکم یہ تھا کہ شاہراہ دستور پر آزاد نقل و حرکت ہونی چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تعینات اہلکار کی تین جگہ پر تلاشی لی گئی ہے اس کی تذلیل کی گئی ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ انارکی اور لا قانونیت ہے۔ عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ مظاہرین اپنی مرضی سے آئے ہیں کہ وہ اپنے ورثا کے قتل کا انصاف چاہتے ہیں جب تک انصاف نہیں ملے گا وہ یہاں سے نہیں جائیں گے عوامی تحریک نے سڑک پر کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بیان اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق الگ ہیں کیا کارکن لیڈروں کے کنٹرول میں نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ عوامی تحریک نے جواب میں کہا ہے کہ کارکن اس کے کنٹرول میں نہیں یہ واضح ہو چکا ہے کیونکہ وہ واپس جانے کو تیار نہیں، ہجوم پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر تحریک انصاف شاہراہ دستور پر دھرنا نہیں دے رہی تو عوامی تحریک کے پاس کیا جواز ہے۔ عوامی تحریک کے جواب سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس سڑکوں پر کنٹینرز رکھنے کا جواز موجود ہے۔چیف جسٹس نے وکلاء سے کہا کہ شاہراہ دستور کو کھلوانے کے لئے سب کو مشترکہ کوشش کرنا ہوگی۔ حامد خان نے عدالت کو تجویز دی کہ پہلے مرحلے میں شاہراہ دستور کی ایک طرف کھولنے کا حکم دیا جائے جس کے بعد دوسری سائیڈ کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ عدالت حکومت کو اسلام آباد کی سڑکوں سے کنٹینرز اٹھانے کا حکم دے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ احتجاج کرنے والی جماعتیں آئین پر عمل کریں، کنٹینرز بھی سڑکوں سے ہٹائے جانے چاہئیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ عوامی تحریک نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ وہ شاہراہ دستور پر موجود ہیں گزشتہ سماعت پر عدالت نے شاہراہ دستور پر نقل و حرکت یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔ عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ، حامد خان ایڈووکیٹ، علی ظفر ایڈووکیٹ، اطہر بخاری ایڈووکیٹ اور درخواست گذاروں کے وکلاء مل کر شاہراہ دستور کا دورہ کرینگے اور آج رپورٹ جمع کرائیں گے رپورٹ جمع ہونے کے بعد عدالت سڑک کی دوسری طرف خالی کئے جانے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ دوران سماعت جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اخبارات میں آیا ہے کہ جمہوریت پر لعنت بھیجی جا رہی ہے ایسی باتیں سن کر تکلیف ہوتی ہے۔ خدارا آئین کا تحفظ کریں، پاکستان بننے کے بعد جو نعمت ملی ہے وہ آئینی ہی ہے۔ مزید سماعت آج ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن