• news

منہاج القرآن کی مقدمہ کیلئے درخواست دہشت گردی دفعات لگانے کی استدعا شامل ہی نہیں تھی

لاہور (احسان شوکت سے) منہاج القرآن انتظامیہ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹائون کے درج کرائے گئے مقدمہ کی درخواست اور ان کے دعووں میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ مقدمہ میں لاہور پولیس کی کمان کرنے والے سابق سی سی پی او چودھری شفیق احمد کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا جبکہ تحریر کے مطابق دہشت گردی دفعات کا اطلاق ممکن ہی نہیں تھا۔ تفصیلات کے مطابق منہاج القرآن انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن محمد جواد حامد کی درخواست میں سابق سی سی پی او چودھری شفیق، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کا نام بھی نہیں دیا گیا حالانکہ عوامی تحریک کے رہنمائوں کی جانب سے ان دونوں کو ذمہ دار قرار دینے پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے چودھری محمد شفیق اور توقیر شاہ کو اسی روز ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا مگر مصلحت کے تحت عوامی تحریک نے ان دونوں شخصیات کے نام ایف آئی آر میں شامل نہ کئے۔ اس کے علاوہ اگر منہاج القرآن کی جانب سے مقدمہ کے اندراج کا متن پڑھیں تو اس میں دہشت گردی کی دفعات لگانے کی استدعا کی ہی نہیں گئی جبکہ آئینی ماہرین کے مطابق اس تحریر پر دہشت گردی کی دفعات 7۔ اے ٹی اے کا اطلاق ممکن نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مقدمہ میں جو دفعات لگائی گئی ہیں ان میں دفعہ 302 یعنی قتل عمد کی سزا قصاص، سزائے موت یا عمر قید 25 سال تک قید، 324 یعنی قتل عمد کا اقدام کرنے کی دس سال تک سزا، جرمانہ، قصاص یا زخمی کی صورت میں 7 سال سزا، 109 اعانت جرم وہ سزا جو اعانت شدہ جرم درج ہے یعنی اس وقوعہ کے حوالے سے قتل کی 109 دفعہ کا اطلاق مقدمہ میں وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، حمزہ شہباز، سابق صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ، وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار پر کیا گیا ہے۔ دفعہ 148 اسلحہ مہلک سے مسلح ہو کر بلوہ کرنا، تین سال قید یا جرمانہ یا پھر دونوں، 149 یعنی مجمع خلاف قانون جس کے کسی شریک فرد سے سرزد شدہ جرم پر مجمع کا ہر فرد مجرم ہو گا۔ وہی سزا جو اصل جرم کی سزا ہو یعنی اس واقعہ کے حوالے سے قتل عمد، دفعہ 395 ڈکیتی، عمرقید یا دس سال بامشقت یا جرمانہ، دفعہ 427 شرارت سے 50 روپے یا زائد نقصان، دو سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں، 506 جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا کے علاوہ پولیس آرڈر 2002 کی سیکشن 155 سی لگائی گئی ہے جس کے تحت پولیس افسران و ملازمین کو اختیارات کے ناجائز استعمال و تجاوز پر تین سال قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
درخواست/ تضاد

ای پیپر-دی نیشن