وقت ہے اہل چمن اب بھی مداوا کر لو
روزانہ مذاکرات نئے مراحل میں داخل ہو کر پرانے نکتے پر پہنچ جاتے ہیں اور حالات اپنے منطقی نتائج کی جانب اپنے فطری تقاضوں کو لئے ہوئے بہت ہی خاموشی سے بڑھ رہے ہیں۔ قوم ذہنی اور فکری طور پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ لیکن غریب کو ان مسائل سے قعطاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں روزمرہ کی زندگی میں آسودگی درکار ہے لیکن عجب طرفہ تماشہ ہے کہ حکومت کے زیر اثر ادارے معاشی میدان میں غریب عوام کو صدقے کی کالی مرغی کی طرح جلد ہی ذبح کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ حکومت کا سنگھاسن بہت بری طرح ڈول رہا ہے، لیکن مشیران بے تدبیر حکومت کے خلاف قلبی کدورت کو بڑھانے کے وہ لاشعوری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی حکومت کو اچھے لفظوں سے یاد نہ کرے۔ ایک دن بجلی کے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں تو چند دن بعد گیس کی قیمتوں سے حکومت کے نفع بڑھانے کا عوام دشمن اقدام کیا جاتا ہے، پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو پٹرولیم مصنوعات کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے لوگ بلکتے ہیں، کوستے ہیں اور بسا اوقات غلیظ الفاظ پر اتر آئے ہیں اور دامن اٹھا اٹھا کر بددعائیں کرتے ہیں۔ یہ اکثریت کا حال ہے۔ موجودہ سیاسی کشمکش اور دھرنوں کا عمل دراصل اسی معاشی ناانصافی اور ناہمواری کا نتیجہ ہے جب کہ نظام حکومت، نظام سیاست اور نظام انتخابات اس معاشی بے چینی کا حل تلاش کرنے میں قطعاً ناکام ہیں۔ مذہب کے نام پر بے چینی اور دہشت آزمائی کا طریقہ بھی دراصل درماندگی اور پسماندگی کے خلاف ایک طرز کا احتجاج ہی ہے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کل کیا ہو گا۔ ملک پر کس غیر ملکی آسیب کا تسلط ہے اور ملک کے کثیر المقاصد معاشی منصوبے کیا ہو سکتے ہیں، وہ تو صرف رات کو سونے سے پہلے دو روٹیاں اور حلق میں ان روٹیوں کو اتارنے کے لئے شفاف پانی چاہتے ہیں۔ نواز شریف استعفی دے دیں گے تو کوئی دوسرا شخص اسی پرانے سیاسی فریم میں بیٹھ کر عوام سے غیر متعلق امور کی انجام دہی شروع کر دے گا۔ ہماری احتجاجی سیاست کے پیچھے تو ہمیشہ ہی عوام مصائب کی وجوہات ہوتی ہیں۔ ہر الیکشن میں زور آور جاگیردار اور سرمایہ دار جیت جاتے ہیں اور غریب تھک ہار جاتے ہیں۔ جب وہ عوام اپنی حالت زار پر بیدار ہوتے ہیں تو اپنے زخموں کا مرہم تلاش کرنے کے لئے وہ بھرپور اور فیصلہ کن تبدیلی کا عزم لئے کسی بھی قیادت کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آج کل کی تازہ ترین صورتحال کے اسباب یہی ہیں۔بھٹو مرحوم کے سیاسی زوال کا باعث بھی اس کے نامعقول مشیر اور لالچی روایتی جاگیردار اور سر مایہ دار ہی تھے۔ بالکل اسی طرح موجودہ حکومت کے ارد گرد ایسے ہی افراد کا جمگھٹا ہے۔ جو مطلب پرست ہیں اورقومی وسعت کے حامل شعور سے قطعی بے بہرہ ہیں۔ ان کے خیالات کا دائرہ نہایت تنگ ہے اور زبان کے استعمال میں وہ نہایت درجہ بے اختیار ہیں‘ پنجاب حکومت کے ایک غیر محتاط اور زبان وزیر نے اسلام دشمن رویوں کو قانون بنانے کی کوششیں کیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس نے پنجاب اسمبلی میں رسول اکرمؐ کی نعت پڑھنے کی شدید مخالف کی اور مختلف اوقات میں مسلمہ آئینی اور قانونی ان حقائق پر تنقید کی جو ناموس رسالتؐ کی حفاظت کرتے تھے۔ راقم کو یاد ہے کہ میں نے عزیز مکرم سعد رفیق کو یہ بات بطریق احسن باور کروائی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم ایسی کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے نکال دیںگے۔ لیکن ایسا نہ ہوا ابھی گزشتہ دنوں پنجاب حکومت ہی کے ایک مشیرکے ایما پر ایک شریف النفس اور مظلوم الحال شخص کی پولیس نے داڑھی مونڈھ دی۔ عدالت کی طرف رجوع کیا تو ان مشیر صاحب نے عدالت پر بھی موثر ہونے کو بھرپور کوشش کی۔ عدالت تو عدل کے ہر راستے کو تلاش کرتی ہے۔ لیکن جبر و ظلم کی ریاست میں تمام راستے ہی بند کرنے کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے اورعدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو جاتا ہے۔ اس مظلوم شہری کے مقدمے میں ذمہ دار پولیس اہلکار سے لے کر بڑے عہدیدار تک آج فطرت کی تعزیز کی زد میں ہیں اور وہ کسی بڑے ہنگامے کے ارتکاب کے حوالے سے پابند سلاسل ہو چکے ہیں‘ اس لئے موجودہ حالات میں موجودہ حکمرانوں کو اپنے حدود حلقہ مشاورت اور نادان دوستوں سے احتیاط کرتے ہوئے ازخود نظام کی تبدیلی کے بارے میں سوچنا چاہئے‘ دوسری جانب سے عمران خان اورڈاکٹر طاہرالقادری صاحبان کوبھی وسعت فکری اوربڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابتدائی کامیابیوں کی طرف ضرور بڑھنا چاہئے جبکہ تیسرا گروپ ہمارے قومی اداروں کے وہ ذمہ دار حضرات میں جو ان سیاسی حقائق اور نظام کی خرابی سے بہت زیادہ باخبر ہیں ان کو بھی بہت وسیع النظری کے ساتھ ساتھ نہایت احتیاط اور تدبیر سے ملکی بقا کے لئے ایسے اقدامات کرنا چاہئیں جن سے مستقبل کے نظام میں روایتی اور ریاستی جبر کے راستے بند ہو جائیں۔ نیز یہ کہ ذاتی یا گروہی پسندوناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین کی وسعت اور قانون کی حقیقی و عملی بالادستی کا صحیح ترین ماحول پیدا ہو جائے تاکہ حقیقی انقلاب اور حقیقی آزادی کی منزل پر پہنچا جا سکے۔