حکومت حکمت کا نام ہے
حکومت حکمت کا نام ہے۔ حکمت نکل جائے تو پیچھے حماقت رہ جاتی ہے اور حماقت کو حکومت کا نام کیونکر دیا جا سکتاہے؟ حکومت جو پہلے ہی پے درپے حماقتوں کا ارتکاب کررہی ہے‘ اب اس نے اسلام آباد کے ریڈ زون کو دھرنا دینے والوں سے خالی کروانے کیلئے ’’روایتی‘‘ طریق کار اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے مسلح اداروں اور ہسپتالوں کے عملے کی غیرمعمولی نقل و حرکت اس امر کی غماز ہے کہ حکومت کے ذہن میں کچھ ’’اچھا‘‘ نہیں ہے۔ حکومتی بزرجمہروں کی ’’پھرتیاں‘‘ اور وفاقی دارالحکومت میں رونما ہونے والی ’’غیرمرئی‘‘ سرگرمیاں کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہوتی ہیں اور یہ ’’طوفان‘‘ عدالتی چھتری کے سائے تلے برپا کرنے کا ’’بندوبست‘‘ کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اگرچہ اس ’’خواہش‘‘ کا اظہار قدرے ’’متحمل اور معمول کے لہجے میں کیا ہے‘ لیکن حکومتی ’’عقاب‘‘ اس عمل کو جدلیاتی رنگ دینے کی نیت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ عدالت کا کام اگر عدل کرنا ہے تو اس کا یہ حکم راست اور بروقت ہے‘ تاہم ایک بات جو دلوں کو زخمی اور ذہنوں کو تاراج کئے دیتی ہے‘ وہ یہ کہ قابلِ صد احترام عدالتِ عظمیٰ نے سانحہ ماڈل ٹائون کے 14 شہداء کے حوالے سے بھی کسی قدر سرعت کا مظاہر کیا ہوتا۔ کیا اس معاملے میں ’’سوموٹو‘‘ ایکشن درکار نہ تھا؟ چودہ جیتے جاگتے انسان جو ریاستی جبر اور حکومتی ظلم و ستم کے نتیجے میں لہو میں نہا گئے‘ کیا ان کے ساتھ عدل روا رکھنا ناگزیر نہیں تھا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بے گناہ مقتولین کا خون ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہماری عدلیہ اور مقتدر ادارے اس خون کے مقروض گردانے جائیں گے‘ اگر ان کے لواحقین کو انصاف نہ ملا جو دو ماہ سے ان کی طرف انصاف طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘ انصاف کے طالب کو انصاف نہ ملے‘ مظلوم کی دادرسی نہ ہو اور بے گناہ مقتولین کے لواحقین کو پُرسہ نہ دیا جائے تو منتطقی انجام سے نہ تو حکومت بچ سکتی ہے اور نہ ہی ادارے‘ اب ابھی اس نازک اور حساس معاملے کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ عدالت کو اس بارے میں پہل کرنی چاہئے۔ مقتولین کے ورثاء کی مدعیت میں ایف آئی آر کاٹی جائے اور اس قتل و غارت گری کے ذمہ داروں کو قرارواقعی سزائیں دی جائیں۔ کیا یہ مطالبہ جائز اور مبنی برحقائق نہیں ہے تو پھر اس سے صرف نظر کیوں کیا جا رہا ہے؟ سرمایہ دارانہ ’’جمہوریت‘‘ اور جاگیردارانہ سیاست میں حکمران طبقہ عوام اور اداروں تک اپنا یرغمالی سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران ٹولہ اور مقتدر افراد نہ تو قانون کی پروا کرتے ہیں اور نہ کسی قسم کی اخلاقیات کی۔ اب حکمرانوں نے جو متوازی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ کیا اس سے لوگوں کی زندگی اور معمولات میں خلل نہیں پڑ رہا اور کیا اسے صحت مندانہ مسابقت قرار دیا جا سکتا ہے؟ آخر اس مقابلہ بازی کی نوبت ہی کیوں آئی؟ حکومت اسلام آباد میں دھرنا دینے والوں کے جائز اور قابل عمل مطالبات کیوں نہیں مان لیتی۔ دھونس‘ دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانا اور آئینی اصلاحات کا مطالبہ کرنا‘ کیا اس قدر بڑا جرم ہو گیا کہ حکومت کریک ڈائون پر مبنی فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ کیا مقتولین کے لواحقین کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج کارِ وارد ہے۔ ابھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور نوشتۂ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا کرے۔ اس سے پہلے کہ اسے ’’پڑھانے‘‘ والے آجائیں اور کچھ نہیں تو ’’بڑے بھائی‘‘ زرداری سے ہی کچھ سیکھ لیا جائے کہ انہوں نے ’’نامساعد‘‘ حالات کے باوجود اپنی ’’باری‘‘ ہنستے مسکراتے پوری کر لی۔ نہ کسی سے ’’آڈھا‘‘ لگایا نہ مڈھ بھیڑ کی جبکہ اس حکومت نے آتے ہی کمال کر دیا۔ چومکھی لڑائی شروع کردی۔ ہیٔت مقتدرہ اور فیصلہ کار قوتوں سے چھیڑ چھاڑ اور مخالفین اور معترضین کودرخور اعتنا نہ سمجھنا اس کا پسندیدہ شغل ہے۔ آخر میں ’’جملۂ معترضہ‘‘ کے مصداق‘ ہم اس وقت بھی حکومت سے یہ توقع اور اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ریڈ زون کو واگزار کروانے کے بہانے اپنے مخالفین اور معترضین کے خلاف سخت طرزعمل اور انتہائی اقدام سے گریز کرے گی اور ان پُرامن مظاہرین کے ساتھ مصالحت کا کوئی پُرامن راستہ نکالے گی کہ حکومت حکمت کا نام ہے‘ حماقت کا نہیں۔