سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دونوں مقدمات میں ’’ملزم‘‘ بدل گئے، مقتولین کے ورثاء مدعیان میں نہیں
لاہور (میاں علی افضل سے) سانحہ ماڈل ٹاون کی پہلی اور دوسری ایف آئی آر میں اصل ملزموں کیخلاف کارروائی کی بجائے ذاتی، سیاسی انتقام اور مخالفین کو پھسانے کی کوشش کی جارہی ہے ذاتی لڑائی میں مظلوم خواتین و مردوں کوبے دردی سے قتل کرنیوالے اصل ملزم قانونی کارروائی سے بچ نکلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ پہلی ایف آئی آر میں عوامی تحریک کے کارکنوں کو اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہرایا گیا اور ان کیخلاف دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں جبکہ طاہر القادری کے چھوٹے بیٹے حسین محی الدین، جنرل سیکرٹری پاکستان عوامی تحریک خرم نوا گنڈا پور و دیگر عہدیداروں کو نامزد اور 3ہزار کارکنوں کیخلاف یہ مقدمہ درج ہوا جبکہ اسی واقعہ کی نئی ایف آئی آر میں ملزم بدلنے پر دہشت گردی کی دفعات نہیں لگائی گئیں اور فائرنگ کرنیوالے پولیس اہلکاروں کے کیخلاف کارروائی کی بجائے تمام تر فوکس وزیراعظم، وزیراعلی، وفاقی وزرائ، وزیر مملکت اور سابق صوبائی وزیر پر رکھا گیا ہے سیاسی اور ذاتی لڑائی کی ایف آئی آرز میں مظلوموں کو گولیاں مار کر چھلنی کرنے والے ملزم قانون کی گرفت سے دور ہیں دونوں ایف آئی آر میں اصل مدعیوں کی بجائے ذاتی مدعی سامنے لائے گئے جبکہ ایف آئی آر کے اندراج میں ہمیشہ ورثاء مدعی بنتے ہیں عوامی تحریک کے کارکنوں کیخلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں سابق ایس ایچ او رضوان قادر ہاشمی اور دوسری ایف آئی آر جس میں حکمرانوں اور پولیس افسروں پر مقدمہ درج ہوا اس میں قتل ہونیوالے افراد کے ورثاء کی بجائے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن منہاج القرآن محمد جواد حامد کو مدعی بنایا گیا۔ پہلی ایف آئی آر مقدمہ نمبر 510/14 میں واقعہ کی تمام تر ذمہ داری عوامی تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں پر ڈالی گئی جبکہ دوسری ایف آئی آر نمبر 696/14 میں واقعہ کا الزام وزیراعظم، وزیراعلی، وفاقی وزرائ، وزیر مملکت اور سابق صوبائی وزیر اور پولیس افسروں پر لگایا گیا جبکہ قتل ہونیوالے افراد کے اصل ورثاء منظر سے غائب ہیں۔