ہفتہ ‘ 3 ذوالقعدہ 1435 ھ ‘ 30 اگست2014ئ
محترم مجید نظامی 1950ءسے 1955ءتک نوائے وقت کا معروف کالم ”سرراہے“ باقاعدگی سے لکھتے رہے جو ان کی حسِ مزاح اور فکاہیہ کالم میں پختگی کا بیّن ثبوت ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے محترم مجید نظامی کے تحریر کردہ سرراہے کے منتخب ٹکڑے پیش کئے جا رہے ہیں۔ (ایڈیٹر)
لاہور کارپوریشن کے پرانے میئر میاں مشتاق احمد بھی چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ ملک شوکت علی آئے ہیں۔ میاں مشتاق نے ایک کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ گوجروں سے خالص دودھ مہیا کرنے کا حلف اٹھوا کر آپ زندہ جاوید ہو گئے ہیں۔
افسوس ہے کہ نئے میئر نے اپنی پہلی تقریر میں پرانے میئر کے اس کارنامے کا ذکر ہی نہیں کیا حالانکہ لاہور والوں کی زبان پر اسی حلف کا ذکر ہے اور جب تک لاہور زندہ ہے اور لاہور والے دودھ استعمال کرتے ہیں، مشتاق میاں بھی زندہ رہیں گے۔
نئے میئر صاحب نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے۔ لاہور کو جنت بنانے کا دعوےٰ نہیں کیا اور نہ سڑکوں کو شاہراہ فردوس بنانے کا ذکر کیا ہے۔ آپ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ صاحب کارپوریشن کے میئر اور کونسلروں کو کوئی خاص اختیارات حاصل ہی نہیں ہیں البتہ انہوں نے خاص اختیارات حاصل کرنے کے لئے اپنے حمائتیوں کی فوج کی مدد سے حکومت سے جنگ شروع کر دی ہے اور اس سلسلے میں تجاویز وہ صوبائی حکومت کو بھیج چکے ہیں۔
البتہ آپ نے پرائمری تعلیم کی طرف توجہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ لاہور کے بارہ لاکھ شہریوں کو خالص غذا مہیا کرنا ان کے نمائندوں (یعنی ہمارا) اور کارپوریشن کے افسروں کا فرض ہے۔
امید ہے آپ ملاوٹی اشیاءفروخت کرنے والوں سے حلف نہیں اٹھوائیں گے۔ ورنہ اگر آپ نے ایک بار حلف اٹھوا لیا تو سمجھ بیٹھیں گے کہ سارا کام ختم ہو گیا ہے اور لاہور والوں کو خالص غذا مل رہی ہے جس طرح پہلے لاہور کو خالص دودھ کی بجائے میاں مشتاق کا وہ ”حلفیہ دودھ“ مل رہا ہے۔
(مجید نظامی ۔ جمعہ 2 جون 1950)
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
نانی نے خصم کیا بُرا کیا
کر کے چھوڑا اس سے بُرا کیا
سیاستدانوں کا حال اس شعر سے مختلف نہیں۔ انہوں نے آرمی چیف کو ثالث بنا کر اگر جمہوریت پاک کو فوج کے قدموں میں رکھ ہی دیا ہے تو پھر اب لڑائی کس بات کی۔ جس نے فوج کو تیار کیا اور جو چل کر جی ایچ کیو گئے سب جمہوریت کے دشمن ہیں، ان سے اچھی تو وینا ملک ہی تھی جو شیخ رشید کی دعوت پر لال حویلی چائے پینے نہیں گئی۔
عمران اور قادری تو پیغام ملنے پر ”لُڈی ہے جمالو“ کہہ کر سنبھل نہیں پا رہے تھے ان کی باچھیں کھل گئی تھیں جبکہ بظاہر جمہوریت کی گردان پڑھنے والے چوہدری برادران اور شیخ رشید پس پردہ اپنے مقاصد پورے ہونے پر دھمالیں ڈال رہے تھے۔
سیاستدانوں سے اچھے تو پھر عام لوگ ہی ہیں جو اپنی لڑائی ختم کرنے کیلئے امام مسجد کو ہی ثالث مان لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں نے جمہوریت کی لُٹیا ہی ڈبو دی ہے ان سے ایسی امید نہ تھی۔ بھکاری بانٹ کر کھاتے ہیں جبکہ انقلاب اور آزادی مارچ والے ناچ کر کھا رہے ہیں۔ مصطفی عزیز آبادی نے آرمی کی ثالثی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے کہتے ہیں
”سو پیاز کھانا اور ساتھ ہی سو جوتے بھی“۔
جمہوریت کے دعویداروں کے چہروں پر یہ سیاہ دھبہ ہے عوام کو اگر موقع ملے تو اس سیاہی میں مزید اضافہ کریں کیونکہ ایسے سیاستدانوں کا یہی علاج ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بابائے قوم ہم شرمندہ ہیں نکمے سیاستدان ابھی زندہ ہیں!
سیاستدان تاریخی میچ ہار گئے۔ خان صاحب اگر اسی امپائر نے انگلی کھڑی کرنی تھی تو قوم کی ماﺅں اور بیٹیوں کو 16 دن تک سڑکوں پر بٹھوانے کی ضرورت کیا تھی آپ زمان پارک میں کھڑے ہو کر ہی انہیں دعوت دے دیتے۔
بلاول بھٹو نے تو تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے:
”بی بی ہم شرمندہ ہیں!“
صرف آپ شرمندہ نہیں پوری قوم شرمندہ ہے۔ جو سیاستدان اپنے مسائل حل کروانے کیلئے آرمی کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں وہ عوام کے مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں؟ موسم میں خوشگوار تبدیلی ہو رہی ہے لیکن سیاست میں دھینگا مشتی جاری ہے۔
خدانخواستہ اگر واقعی کوئی انقلاب آتا ہے جس کی دور دور تک ویسے کوئی کرن نظر نہیں آ رہی تو قادری صاحب کی اولاد نے ہی مزے لینے ہیں، خاتون اول تو انکی اہلیہ ہی بنیں گی انہیں اب بھی ان خواتین کے ساتھ شاہراہ دستور پر ہونا چاہئے۔
قادری صاحب اور خان صاحب کے بیٹے تو دھرنوں سے ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ عمران اور قادری صاحبان کے حواریوں کو آرمی کے ذریعے ثالثی مبارک ہو۔ اگر یہی انقلاب اور آزادی ہے تو پھر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی والوں کو لاکھوں مبارکیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی روح کو ہم یہی کہہ سکتے ہیں بابائے قوم ہم شرمندہ ہیں نکمے سیاستدان ابھی زندہ ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭