• news

آرمی چیف سے ملاقاتیں اور وضاحتیں

معلوم نہیں وطن عزیز کو کب زخموں سے نجات ملے گی ؟ یہ وہ بد قسمت ملک ہے کہ اپنے یوم پیدائش سے لیکر آج تک مسلسل زخموں کا ہدف ہے۔پھر سب سے بڑا دکھ یہ بھی ہے کہ زخم لگانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ انکے اپنے ہی بیٹے ہیں ۔کبھی اسلام کے نام پر، کبھی شریعت کے نام پر ،کبھی دھاندلی کے نام پر اور کبھی انقلاب کے نام پر حملے جاری رہتے ہیں۔ پچھلے تین ہفتوں سے یہ کھیل پوری شدت سے جاری ہے۔ کسی نے ٹھیک کہا تھا:” زلزلوں کو دعوت کوئی نہیں دیتا ۔ سیلابوںکی دعائیں کوئی نہیں مانگتا۔طوفانوں کی راہیں کوئی نہیں تکتا۔سیاستدانوں کو انقلاب لانے کی دعوتیں کوئی نہیں دیتا لیکن کیا کریں ” قدرتی آفات “خود بخود نازل ہوجاتی ہیں۔ “1971کی طرح سیاسی قوتیں ایک دفعہ پھر میدان میں برسر پیکار ہیں ۔وطن عزیز کی سلامتی پر کاری ضربیں لگانے میں پوری تندہی سے مصروف ہیں تو انکی وجوہات ،کارکردگی،طریقہ واردات اور ممکنہ نتائج کا جائزہ لیناضروری معلوم ہوتا ہے۔
سب سے پہلی حیران کن بات تو یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسا سانحہ تو رونما نہیں ہوا کہ اچانک ہلچل مچا کر ملک کو بے بس کر دیا جائے۔ شاید انہیں کوئی خواب میں بشارت ہوئی کہ اچانک جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب انقلاب انقلاب پکارتے ہوئے کینیڈا سے اڑے ۔لندن میں جناب الطاف بھائی سے ملاقات کی اور پاکستان میں وارد ہو گئے۔اب یہ موجودہ ڈرامے کا سب سے اہم کردار ہیں۔دوسرے نمبر پر جناب عمران خان صاحب کچھ عرصے سے ملک میں جلسے تو کر رہے تھے ۔پھر وہ اپنے بچوں سے ملنے لندن تشریف لے گئے اور وہاں سے الیکشن میں کی گئی دھاندلی کے پس منظر میں استعفٰے استعفٰے پکارتے ہوئے وطن تشریف لائے اور تیسرے اہم کھلاڑی جناب میاں صاحبان اور انکے منہ پھٹ وزراءکی ٹیم ہے جو Matador کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ڈرامے کا اختتامیہ المیہ ہوگا یا طربیہ اسکا فیصلہ تاریخ کریگی جس کیلئے کچھ وقت درکار ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسی بڑی سیاسی تحریکیں اچانک شروع نہیں ہوتیں ۔اس کیلئے ایک خاص ماحول کی ضرورت پڑتی اور یہ ماحول بنانے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے جبکہ یہاں ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ بس اچانک فیصلہ ہوا اور چند دنوں کے اندر اندر جلوس نکل پڑے۔ یہاں دوسری بات بھی بڑی حیران کن ہے کہ تحریکوں کے دونوں راہنما کسی حد تک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک خالصتاً مذہبی راہنما ہے اور مذہب کے نام پر عوام کو ابھارتا ہے۔ دوسرا لبرل پاکستانی ہے جو کسی دور میں ” پلے بوائے“ رہا۔وہ ناچ گانا، اچھل کود اور خواتین کا ہلہ گلہ سب کچھ جائز سمجھتا ہے جبکہ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں شاید یہ سب باتیں درست نہ ہوں کیونکہ اسلام ان کی اجازت نہیں دیتا۔ وزیر اعظم کے استعفٰی کے علاوہ ان دونوں کے ایجنڈے میں بھی تضاد ہے۔جناب عمران خان صاحب الیکشن میں دھاندلی کا شور مچا کر وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں اور جناب ڈاکٹر صاحب انقلاب کی آمد کے منتظر ہیں اور تیسرے کھلاڑی جناب ڈاکٹر محمد نواز شریف صاحب ان دونوں کو فی الحال ٹھینگا دکھا رہے ہیں ۔انکا ٹھینگا دیکھ کر انکے وزراءایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑ رہے ہیں کہ اگر دوسرے دونوں کھلاڑی مفاہمت کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔
ان مارچز کے ا علانات اور تیاری سے لیکر اب تک کچھ بہت ہی دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ دونوں تحاریک کے راہنماﺅں نے اچھے پہلوانوں کی طرح وقت سے بھی پہلے حکومت کو خوب ڈرانا شروع کیا کہ دس لاکھ لوگ ان کے ساتھ ہونگے اور حیران کن رد عمل یہ تھا کہ حکمران حقیقت میں ڈر گئے۔ وہ اس حد تک بو الہوسی کا شکار ہوئے کہ پورے لاہور اور لاہور کی تمام سڑکوں کو مکمل طور پر سیل کر کے پولیس کی بھاری نفری ہر جگہ تعینات کر دی۔ہر طرف کنٹینر زہی کنٹینرز نظر آئے اور لوگ اس حد تک تنگ ہوئے کہ دولہے باراتیں تک نہ لے جا سکے۔معزز لوگوں کو کنٹینرز کے نیچے سے فوجیوں کیطرح کرال کر کے گزرنا پڑا۔ یہ سیکورٹی کے نام پر سراسر نا اہلی تھی۔ اس سے لوگ بہت بد ظن ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انکی ہمدردیاں ان تحاریک کیساتھ ہو گئیں۔ یہ حکومت کیلئے بہت بڑا دھچکا تھااور تحاریک کے لوگوں کیلئے غیبی مدد۔ حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ جب بھی عوام کو تنگ کیا جائیگا۔ حکمرانوں کے ساتھ عوامی ہمدردیاں اتنی ہی کم ہوں گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ جو بھی حکومتی نمائندے ٹی وی پر حکومتی نکتہ نظر پیش کرنے آئے وہ نا اہلی کی تصویر نظر آئے ۔ غیر مدلل اور بے اثر انداز بیاں جیسے عوام پر کلہاڑا چلا رہے ہوں۔یہاں اس بات کاذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی کہ جو تقریر جناب علامہ قادر ی صاحب نے اپنے یوم شہداءکے موقع پر کی وہ فنِ تقریر کا اعلیٰ شاہکار تھی۔ انہوں نے دو گھنٹے اپنے سامعین کو باندھ کر رکھا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اپنی ایمانداری، اپنی خدمات ،اپنے مقصد کو اسلامی رنگ دیکر شہدائے کربلا ،حضور کریم کی ذاتی زندگی کے ساتھ منسلک کر کے اس انداز میں پیش کیا کہ نہ چاہنے والے بھی انکے گرویدہ ہو گئے۔ انہوں نے عوام کے جوش کو درجہ بدرجہ اتنا ابھارا کہ ان کے معتقدین ان کیلئے جان تک دینے کو تیار ہو گئے اور یہی ایک اچھے مقرر کی صلاحیت ہے ۔یہاں تک کہ وزیر داخلہ بھی انکی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے شکسپئیر نے جولیس سیزر میں مارک انٹونی سے تقریر کرا ئی تھی اور اس تقریر نے ہجوم اور تاریخ کا رخ بدل دیا تھا۔یہی کچھ علامہ ڈاکٹر قادری صاحب نے کیا۔ انکے مقابلے میں عمران خان طفلِ مکتب ثابت ہے۔ شروع شروع میں تو ان کی تقریر کسی حد تک پرجوش تھی لیکن بعد میں یکسانیت بلکہ بوریت کا شکار ہو گئی۔ علامہ طاہر القادری صاحب بھی اپنے پرانے بنیادی نکات دہراتے رہے لیکن ہر دفعہ نئے الفاظ، نئی مثالوں اور نئے اسلامی حوالوں سے منسلک کر کے ۔لہٰذا عوام کا جوش و جذبہ آخر تک قائم رہا۔ ان دونوں کے مقابلے میں جناب ڈاکٹر محمد نواز شریف صاحب کی تقریر سب سے زیادہ مایوس کن تھی۔ انکی آنکھیں لال تھیں۔ چہرے پر پریشانی نظر آرہی تھی۔ میرے ایک دوست نے فون پر پوچھا کہ وزیر اعظم صاحب رو کیوں رہے ہیں؟ موقع کی مناسبت کے حوالے سے بھی وزیر اعظم صاحب کی تقریر ناکام تقریر تھی۔ انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف نہ تو کوئی مدلل بات کی اور نہ ادائیگی کے اتار چڑھاﺅ سے کوئی تاثر چھوڑا بلکہ عوام اور مخالفین کے بادشاہت کے الزام کو بھی گول کر کے برطانوی بادشاہت کی طرف پھیر دیا۔
انتظامی لحاظ سے عمران خان صاحب کا جلوس افراتفری ،انتشار اورنا مناسب منصوبہ بندی کا شکار رہا۔ کافی تاخیر سے اسلام آباد پہنچا جہاں انتظار کر کر کے استقبال کرنیوالے تھکاوٹ کا شکار ہو چکے تھے۔ پھر وہاں نہ کوئی بارش سے بچنے کا انتظام تھا نہ کھانے پینے کا اور نہ ہی مناسب ٹائلٹس کی سہولت ۔لہٰذا سفر کی تھکاوٹ سے چور جلوس خصوصاً خواتین کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جبکہ قادری صاحب کے انتظامات اور اپنے جلوس پر کنٹرول کہیں بہتر تھا۔ انہوں نے آخر تک اپنے لوگوں کو چارج رکھا۔اس بحران میں تین بٹ صاحبان کا کردار بھی بڑا اہم ہے یعنی لاہور میں گلو بٹ،گجرانوالہ میں پومی بٹ اور ملتان میں بلو بٹ ۔ملتان میں بلو بٹ نے یہ بیان دیا ہے کہ ” وہ اس سے پہلے 17بار جیل جا چکے ہیں ۔اٹھارویں بار جیل جانا سعادت ہو گی“۔ اس سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ کیسے کیسے نادر ہیرے جناب نواز شریف کی گود میں موجودہیں۔ بہر حال اس بحران کے نتائج جو بھی ہوں لیکن دو چیزیں یقینی ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان کی جمہوریت پہلے کی طرح نہیں رہے گی اور دوم یہ کہ وطن عزیز کو ناقابل تلافی معاشی نقصان برداشت کرنا پڑیگا جو یقیناً عوام پر بہت بھاری پڑیگا۔ اب نون لیگ کی طرف سے دھرنے بے وقت اور غیر ضروری عمل ہے جو ملک کو انتشار اور خانہ جنگی کی طرف لے جائیگا۔طاہر القادری اور عمران خان اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں، نواز شریف استعفیٰ سے انکار کر چکے ہیں۔ ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے جمہوری وزیراعظم کی نظر آرمی چیف پر پڑی کہ وہ ثالث کا کردار ادا کریں‘ اگلے روز وزیر داخلہ اور وزیراعظم نے اسکی وضاحت کر دی‘ جسے طاہرالقادری نے رد کردیا۔ اب مزید وضاحتیں ہونگی البتہ سب سے اہم آئی ایس پی آر کی ہو گی۔

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن