بی بی ہم شرمندہ ہیں؟
بلاول بھٹو زرداری نے موجودہ انتشار کی صورتحال کے لئے پاک فوج کی طرف سے ثالثی اور ضامن کے کردار پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
بی بی ہم شرمندہ ہیں
ہم بلاول کے مداح ہیں۔ انہوں نے پچھلے دنوں بڑی جرات مندی سے بیانات دیے تھے۔ روائتی اپوزیشن کے کسی سیاستدان کو حتیٰ کہ بلاول کے والد محترم ’’صدر‘‘ زرداری کو بھی توفیق نہیں ہوئی۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے اپنے مطلب کے ’’دوستوں‘‘ سورمائوں یعنی سومروئوں اور شیخ چلیوں کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ کوئی بیان دے سکیں۔
بلاول کو شرمندہ ہونا چاہئے اور اس کی بہنوں اور دوستوں کو بھی شرمندہ ہونا چاہئے۔ بی بی سے شرمندہ ہونے کا وقت گزر گیا یا گزار دیا گیا ہے۔ اپنے آپ سے شرمندہ ہونا چاہئے۔ میرے دل میں بی بی شہید کے لئے ایک محبت ہے اور میں اسے ایک بڑا اور عالمی سیاستدان مانتا ہوں۔
مگر یہ بات بلاول کو معلوم نہیں ہے کہ میثاق جمہوریت پر نواز شریف کے ساتھ دستخط کرنے کے بعد ابوظہبی میں انہوں نے جنرل مشرف سے بات کی تھی اور ڈیل کی تھی۔ سیاستدانوں کو ڈیل کے بغیر اقتدار ملتا نہیں ہے۔ تب جنرل کیانی بھی موجود تھے اور رحمان ملک بھی جو کئی رازوں سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کسی آدمی سے گھبراتے ہیں تو وہ رحمان ملک ہیں۔ اس میں کیا راز ہے؟ تب بلاول شرمندہ نہیں ہوئے تھے؟ جب جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت توڑی تھی تو بی بی نے ان کو مبارکباد بھی دی تھی مگر جنرل مشرف نے کہا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ایک ہیں۔ ایک سے ہیں۔ بی بی مشرف سے دور ہو گئیں مگر آخری دنوں میں پھر قریب آ گئیں اور انہیں پاکستان آنے کی اجازت ملی جبکہ جنرل مشرف ان کے لئے الیکشن سے پہلے پاکستان آمد کے خلاف تھے۔ اس بہانے سے نواز شریف بھی پاکستان آ گئے مگر وہی ہوا اور انہوں نے کیا جنہوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی باریاں مقرر کی ہوئی تھیں۔
خورشید شاہ قومی اسمبلی میں کہتے ہیں کہ نواز شریف جھک گیا تو بھی ہم نہیں جھکیں گے۔ جب مشرف صدر تھا تو کوئی ایک بیان خورشید شاہ کا دکھا دیں کہ انہوں نے جھکنے یا نہ جھکنے کی بات کی ہو۔ وہ سندھی ہیں اور سندھ میں بھٹو کے جنازے میں چند لوگ تھے جن میں کوئی جیالا نہ تھا۔ تب خورشید شاہ کہاں تھے؟
یہ جو نعرے جیسا مصرعہ ہے یہ لوگوں نے لگایا تھا۔ کئی بار بی بی شہید کے قبر کے آس پاس بھی لگایا گیا ہے۔ جب بی بی کے قتل کو مذاق بنا دیا گیا، مسخ کر دیا گیا۔ بلاول کے والد اور بی بی شہید کے شوہر نامدار ’’صدر‘‘ زرداری کی حکومت میں ایف آئی آر بھی درج نہ ہوئی۔ تفتیش بھی نہ ہونے دی گئی بلکہ پوسٹ مارٹم بھی نہ ہونے دیا گیا۔ کبھی بلاول نے اپنے ابا جان سے پوچھا کہ امی جان کے قتل کا کیا ہوا؟ ایسا تو کسی کمزور اور غریب آدمی کی بیوی کے قتل پر بھی نہیں ہوتا۔ کیا بی بی اتنی ہی گئی گزری تھی کہ کسی نے اس کے قتل کی پرواہ بھی نہیں کی۔ کیا بلاول کی بہنوں بختاور اور آصفہ نے کبھی اپنی عظیم ماں کو یاد کیا۔ یہ مصرعہ بی بی کے قاتلوں کی طرف ہاتھ نہ بڑھانے پر کہا گیا تھا اور یہ ’’صدر‘‘ زرداری بلاول بختاور اور آصفہ کے خلاف ایک احتجاج اور ردعمل کے طور پر جیالوں کی زبان پر آیا تھا۔ اس مصرعے کی وجوہات پر ابھی بھی غور کرنے کا وقت ہے۔ مگر سیاست بڑی ظالم اور خود غرض چیز ہے۔ یہ رشتوں کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔
بی بی ہم شرمندہ ہیں
تیرے قاتل زندہ ہیں
ہسپتال میں بی بی کی لاش کے قریب کھڑے نواز شریف کو جیالوں نے رو رو کر کہا تھا کہ بی بی پر اس ظلم کا بدلہ آپ لیں گے مگر نواز شریف خاموش تھے۔ جیالوں کو آغاز ہی میں معلوم تھا کہ بی بی کا شوہر اور بچے اس کا بدلہ نہیں لیں گے۔ میرے قبیلے میں یہ روایت پکی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے معمولی آدمی کا بھی بدلہ ضرور لیتے ہیں۔ یہ سیدھی سیدھی بے حمیتی ہے کہ اپنی ماں اور اپنی بیوی کا بدلہ نہ لیا جائے۔ صنم بھٹو کہاں ہے۔ وہ کس قسم کی بہن ہے۔ مجھے تو رنج فاطمہ بھٹو پر بھی ہے۔ اسے خاندان میں سب سے زیادہ رنج اپنی پھوپھی کا تھا مگر اس نے بھی ایک حرف منہ سے نکالا۔ بلاول کی پھوپھی فریال تالپور ایک دفعہ مجھ سے ملنے آنا چاہتی تھی کہ میں نے ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے اخبار میں لکھا تھا اسے رہا کرو یا اس کے مقدمے کا فیصلہ کرو۔ جب زرداری صاحب ضمانت کے لئے عدالت میں پیش ہوئے تو ان کے ہاتھ میں نوائے وقت میں لکھا ہوا میرا کالم تھا۔ مگر فریال تالپور مجھے نہ مل سکیں۔ اقتدار کے زمانے میں ان سے میں نے ملاقات نہ کی تھی۔ فریال تالپور کو بی بی کی شہادت کے بعد اقتدار کے مزے ملے تھے مگر ان کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی بھابھی کے قتل کے خلاف کوئی آواز اٹھاتیں۔ وہ آج بھی بی بی شہید کی نشست سے ایم این اے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی ’’صدر‘‘ زرداری کی طرح خود کوایک کامیاب سیاستدان ثابت کیا ہے مگر یہ زرداری سیاست ہے…
اصولی طور پر بلاول کی بات درست ہے کہ سیاستدان اپنا مسئلہ حل کرنے میں مل کر ناکام ہوئے ہیں۔ آخر کار فوج کو ثالثی کرانے اور ضامن بننے کے لئے بلایا گیا ہے۔ پچھلے لانگ مارچ میں جنرل کیانی نے نواز شریف کو فون کیا تھا۔ وہ گوجرانوالہ سے ہی واپس چلے گئے تھے۔ ان کی پنجاب حکومت بچ گئی تھی اور چیف جسٹس بحال ہو گئے تھے۔ انہوں نے بحال ہو کے لوگوں کو بے حال کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے مسلسل رکاوٹ ڈالنے کے باوجود پانچ سال پورے کئے۔ یہ واقعی ایک کریڈٹ ہے مگر کریڈیبلٹی کہاں ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے مخصوص دوستوں کو خوب نوازا۔ کئی سورما یعنی سومرو اور شیخ چلی امیر کبیر ہو گئے۔ انہوں نے ’’صدر‘‘ زرداری کو گمراہ کیا مگر خوشامد کے ذریعے میڈیا کے بھی مالک بن گئے۔ ’’صدر‘‘ زرداری وقتی طور پر تو کامیاب ہو گئے مگر ان کی بہت رسوائی ہوئی۔ پاک فوج کے خلاف نواز شریف کے وزیروں نے حد کر دی۔ اب جنرل راحیل شریف ہی کو مدد کے لئے بلایا گیا ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان کا تبصرہ بہت دلچسپ ہے۔ ’’آخر پھر غلیل ہی کام آئی۔‘‘ پرویز رشید غور کریںکہ غلیل والوں نے غلیل بھی نہیں چلائی مگر سب کچھ انہی کے کنٹرول میں ہے۔
اس سے پہلے جنرل وحید کاکڑ نے بھی نواز شریف اور صدر اسحاق کے درمیان ’’مک مکا‘‘ کرایا تھا۔ دونوں اپنا اپنا کھیل مکا کے چلے گئے۔ ہمیشہ فوج ہی سیاستدانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے آئی ہے۔ بالخصوص نواز شریف کے بہت کام آئی ہے مگر نواز شریف اور اس کے وزیر شذیر فوج کے لئے دل میں سے بغض نہیں نکال سکے۔ سیاستدان نااہل ہیں۔ نالائق ہیں۔ آپس میں اقتدار کے لئے لڑتے ہیں اور سارے فوج کو آواز دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’صدر‘‘ زرداری نے پانچ برس پورے کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پانچ سال صدر جنرل مشرف کی ’’سیاسی حکومت‘‘ اور اسمبلی نے بھی پورے کئے تھے۔ اب دونوں عمران اور نواز شریف پاک فوج کی طرف دیکھ رہے تھے۔
جنرل راحیل شریف تواپنے ادارے پاک فوج کے علاوہ اپنی فیملی کے وقار کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی بہت باوقار انسان ہیں۔ ایک اعلیٰ پروفیشنل سپاہی ہیں۔ سیاستدان پاک فوج کو اب زیادہ ذلیل و خوار نہ کریں۔ نواز شریف کے لئے یہ بہت غور طلب بات ہے۔ وہ اپنے نالائق وزیروں مشیروں کے یرغمال نہ بنیں۔ اور خود فیصلے کریں۔ وزیروں سے بہتر ہے کہ وہ مریم نواز سے مشورہ کر لیا کریں۔ ان کی باتوں میں وفا محبت اور یہ فائدہ تو ہو گا کہ وہ نواز شریف کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گی۔ سیاستدان تو صرف سازش کرتے ہیں اور سازشں دوستوں اور ساتھیوں کے خلاف کی جاتی ہے۔
جنرل راحیل شریف ایک بڑے اور سچے اور بہادر آدمی ہیں۔ ان سے بات خود نواز شریف کریں۔ ان کے لئے اپنے وزیروں کو بیانات دینے سے روکیں۔ کسی کی بات پر اس طرح اعتبار نہ کریں کہ پھر باقی کچھ نہ بچے۔ جنرل ظہیرالاسلام بھی قابل اعتبار دلیر سپاہی ہیں۔ ان سے مدد لیں نہ کہ انہیں اپنا مخالف بنا لیں۔ یہ لوگ اپنے ادارے اور ریاست کو برابر برابر چاہتے ہیں۔ ہر کسی کے ساتھ سیاستدانوں کو سیاست نہیں کرنا چاہئے۔
بلاول کو یاد ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہر اقتدار کے وقت کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ انتقام دشمن کو کمزور کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ ساتھیوں پر حاوی ہونے کے لئے نہیں ہوتا۔ غریبوں کے لئے انتقام کچھ اور ہوتا ہے مگر ہماری ’’جمہوریت‘‘ کا رویہ یہ رہا ہے کہ غریبوں سے انتقام لیا جاتا رہا ہے۔ کبھی ہم کہتے تھے بھٹو ہم شرمندہ ہیں۔ پھر کہا گیا بی بی ہم شرمندہ ہیں۔ شرمندہ تو ہم ہیں مگر اب کس کا نام لیا جائے گا۔ شرمندہ ہونا اور زندہ ہونا ایک چیز بن گیا ہے۔