’’امپائر‘‘ کا اشارہ اور نواز شریف
حکومت‘ عمران اور قادری ان میں سے کسی کی فتح و شکست پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی ہے مگر ’’سبق‘‘ سب کیلئے موجود ہے کیونکہ قادری کا ’’انقلاب‘‘ کہیں نہیں ہے۔ عمران کی ’’تبدیلی‘‘ کہیں نہیں ہے اور حکومت کو آرمی چیف کی مدد حاصل کرنا پڑ گئی ہے یعنی جمہوریت کو بچانے کیلئے فوج کا سہارا لینا پڑ گیا ہے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے ایک باغی جاوید ہاشمی واپس اپنے گھر ملتان چلے گئے ہیں یوں بھی جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر ’’اجنبی اجنبی‘‘ سے دکھائی دیتے تھے۔ عمران خان کے ’’آزادی مارچ‘‘ میں جس قسم کا مجمع تھا ان میں کرکٹ کے شائقین زیادہ تھے اور وہ سب عمران خان کو دیکھنے آتے تھے اور انہیں ملکی حالات اور سیاست کے اتار چڑھاؤ یا کسی جدوجہد یا معاملات کی سنگینی کا ادراک نہیں تھا لیکن ان کے لئے اتنا سا خوش کن خیال کافی ہوتا تھا کہ انہیں خوش لباس ہو کر کیسے بیٹھنا ہے کیونکہ سامنے عمران خان موجود ہوتا تھا۔ تحریک انصاف کے لیڈرکے برعکس جاوید ہاشمی ایسے پختہ کار سیاستدان ہیں کہ جنہوں نے جلسہ گاہوں میں بیٹھے ہوئے نظریاتی طور پر سنجیدہ بردبار اور بامقصد مجمعے کو بھی دیکھاہوا ہے اس لئے جاوید ہاشمی کی الجھن اور تکلیف انکے چہرے سے نمایاں ہوتی رہتی تھی اور انہیں دیکھ کر اکثرمیں یہ سوچتی تھی کہ یہ آج گئے یا کل گئے اور مزاجوں کی تبدیلی تو ایک ساتھ کر دیں آپس میں اکٹھ کرنیوالے عمران اور قادری دونوں کے جلسوں کی عوام میں بھی دیکھی جاسکتی تھی مترنم دھنیں بجتی رہتی تھیں اور ان تماش گاہ سے کہیں کھڑی دور کروڑوں عوام حیرت زدہ تھی کہ یہ ملک کس مقام پر کھڑا ہے اور ملک کے بنیادی مسائل سے ہٹ کر اقتدار کے کھیل میں چھپی خواہشات کتنی خود غرض ہیں کہ جس کی وجہ سے ہر چیز داؤ پر لگا دی گئی ہے اور آخر کا اس غلط روش اور ہٹ دھرمی کا انجام بھی سامنے آگیا کہ فوج کی مدد حاصل کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔
پاکستانی عوام اور میڈیا میں جتنے لوگ بھی نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں وہ سب ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ صدر زرداری کے دور حکومت میں پانچ سال مکمل ہونے کی خوشی یہ تھی کہ دنیا کو ہمارا وہ چہرہ دکھائی دیگا جو ایوب خان‘ ضیاء الحق اور مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کے دور حکومت سے ہٹ کر ہے۔ یہی حال ایم کیو ایم کا بھی تھا وہ بھی بدلتے ہوئے حالات کا جائزہ لے کر آب و ہوا کے مطابق موقف اپنانے والے رویہ کو اپنا کر چلتے رہے ہیں جبکہ صورت حال یہ تھی کہ قادری اور عمران تو صرف اور صرف نوازشریف کو اقتدار سے محروم کرنے کے ایجنڈے پر تھے اور دیگر لوگ نواز شریف کے ساتھ ہونے کی بات میں ’’جمہوریت ‘‘ کی طرف چل پڑے تھے اور بلند آہنگ بیان کے ساتھ یہ نہیں کہتے تھے کہ الیکشن کیلئے اصلاحات ہونا چاہیے لیکن آئینی طور پر منتخب وزیراعظم کو کیوں اتارنے پر اصرار کیا جارہا ہے ۔ جبکہ پاکستان کی عوام کی ایک بڑی تعداد ایسا نہیں چاہتی اور پھر پارلیمنٹ ‘ وکلاء اور دیگر لوگ بھی غیر آئینی اقدامات کیخلاف بات کرتے نظر آرہے ہیں لہذا اگر پاکستان میں جمہوریت کی بقاء کے تحفظ کیلئے دو ٹوک اور واضح بات کی جاتی تو نوازشریف کے حق میں بہتر جاتا اسی لیے پھر نوازشریف نے بھی یہ جانچ لیا تھا کہ فوج کی مدد کے بغیر عمران اور قادری یرغمال بنائی ہوئی عوام کی جان بخشی نہیں کرینگے اور پھر عمران خان نے تو کافی دن پہلے ’’ایمپائر‘‘ کی طرف اشارہ کرکے یہ بتا دیا تھا کہ مسئلے کا حل کا راستہ وہی اختیار کرنا پڑیگا۔ لیکن عمران خان کو ابھی بحیثیت لیڈر تربیت ہونا باقی ہے اسی لئے خدا کا شکر ادا کریں کہ انہوں نے انگلی اٹھا کر صرف ’’ایمپائر‘‘ کہہ کر اشارہ کیا ورنہ وہ ’’جنون‘‘ میں مزید کہانی بھی بیان کر سکتے تھے
سوال یہ بھی ہے کہ اگر نوازشریف کو اپنے انداز ’’شاہانہ‘‘ اور ’’بادشاہانہ‘‘ نہیں رکھنے چاہیئے تھے تو سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ ملک ’’جنونیوں‘‘ کے حوالے کر دیا جائے گا کیونکہ عقل و دانش اور صبر و سلیقے کے ساتھ تو یہ ملک چلایا جا سکتا ہے لیکن جنون یا پاگل پن کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا ہمارے ملک کے سامنے بھارت جیسا ’’جنونی‘‘ دشمن ہی کافی ہے کہ جس کی چالبازیوں کا مقابلہ کرنے کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے پھر کسی اور جنونی کی کیا ضرورت ہے کیونکہ مجھے یہ بات ہی سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم آپس میں جنونی ہو کر کس طرح ترقی کرینگے اور پھر اسی قسم کے نعروں اور باتوں کی وجہ سے پاکستان کی عوام کو بھی غلط راستے پر چلا دیا جاتا ہے اور انکے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے اور اب یہ بات اڑائی جا رہی کہ جمہوریت اور نوازشریف کی حمایت میں صحافیوں میں ’’پیسہ‘‘ خرچ کیا گیا جو کہ جھوٹ کا پلندہ ہے اور یہ صاحب کردار صحافیوں پر الزام تراشی بھی ہے ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیئے کہ پاکستان اگر اتنی مشکلات میں بھی قائم دائم ہے تو یقیناً یہاں ابھی صاحب کردار لوگ موجود ہیں‘ لیکن بات اتنی سی ہے کہ اب سیاستدانوں کو صاحب کردار بننا پڑے اور یہ بات بھی ماننا پڑیگی کہ سیاست میں فوج کو مداخلت کی دعوت تو نوازشریف نے دی مگر ’’ایمپائر‘‘ کا اشارہ عمران خان نے دیاتھا اب جو بھی ہو لیکن خدا کرے کہ سب کچھ آئینی حدود میں ہو…!! اپنا خیال رکھیئے گا