ثالث بننے کی پیشکش نہیں کی‘ سرکاری عمارتوں پر حملے روکنا حکومت کا کام ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں عدالت نے اٹارنی جنرل کی مظاہرین کے خلاف حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق سپریم کورٹ کو کیسے کہہ سکتا ہے کہ آرٹیکل 199 کے تحت حکم جاری کرے، یہ انتظامی معاملہ ہے اگر حکومت بے بس ہوگئی ہے تو وہ لکھ کردے پھر عدالت اپنا حکم جاری کردیگی، سرکاری عمارتوں پر حملے روکنا حکومت کا کام ہے۔ عدالت نے حکومت سے دھرنے کے لئے جاری این او سی کی کاپیاں طلب کرتے ہوئے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائدین سے موجودہ سیاسی صورتحال کے آئینی حل سے متعلق تجاویز طلب کر لی ہیں، اٹارنی جنرل اور کامران مرتضیٰ کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کی توڑ پھوڑ سے متعلق پیش کردہ سی ڈیز کے حوالے سے سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ملٹی میڈیا کا انتظام کرے تاکہ عدالت ان کا جائزہ لیکر حکم جاری کرے، عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کو لازمی پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کو چوبیس شرائط دی گئیں جنھیں منظور کیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر کچھ لوگ آئین اور پاکستان کے خلاف ہیں تو ہمیں کھل کر بتا دیں، ہمیں آئین کی پاسداری سے متعلق تحریری جواب دیا گیا کہ آئین کی پاسداری کی جائے گی، تاریخ میں یہ واقعہ بطور نظیر لکھا جائے گا کل دس مسلح افراد آجائیں تو پھر آئین کی پاسداری کہاں گئی۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ احتجاجی دھرنے کے شرکاء پر ریڈ زون میں دا خلے پر پابندی تھی تو پھر یہ لوگ کیسے داخل ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا حکومت کی جانب سے ریڈ زون میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کل دھرنے والوں کو سپریم کورٹ ، پارلیمنٹ ،پی ٹی وی میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جاسکتی ہے ،کل طالبان آجائیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہمیںبتایا جائے کہ ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہے یا نہیں، میری گاڑی پر حملہ کیا گیا سکیورٹی سکوارڈ پر بھی حملہ ہوا ،جو کچھ ہو رہا ہے آئین کے مطابق نہیں ہے ،ہمیں بتائیں ہو سکتا ہے ہم آپ کے ایشوز کو حل کر سکیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پوری دنیا کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی ہیں تاریخ رقم ہو رہی ہے کل کوئی ہمیں یہ کہنے والا نہ ہو کہ سپریم کورٹ نے آئین کی پاسداری نہیںکی تھی۔ دوہرا معیار نہیں چلے گا ہرچیز سامنے آنی چاہئے یہ مستقبل کے بچوں کے لئے تاریخ رقم ہو رہی ہے، عدالت کی آرڈر شیٹ سب کچھ بتائے گی پتہ چلنا چاہئے کون سچ کہ رہا ہے کون جھوٹ، تحریک انصاف کے وکیل احمد اویس نے کہا کہ آئین سے انخراف نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت سے ازخود نوٹس لینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے انھیں کہا تھا کہ وہ درخواست دائر کریں ہم جائزہ لیں گے لیکن انھوں نے درخواست دائر نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے موجودہ سیاسی صورتحال میں ثالث بننے کی کوئی پیشکش نہیں کی۔ میڈیا پر چلا ہے کہ عدالت نے ثالث بننے کا کہا، لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کہا، عدالت اپنے سامنے آنے والے معاملات پر فیصلہ کرتی ہے۔ عدالتی ثالثی کا کردار ادا نہیں کر سکتی، آئین کے تحت ہمارا کام ثالثی نہیں منصفی کرنا ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ این او سی سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کو ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی جس پر عوامی تحریک کے وکیل نے کہا کہ بعد میں ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا کوئی اجازت نامہ ہے تو وہ عدالت میں پیش کیا جائے تاہم تحریک انصاف کے وکیل ایسا کوئی بھی اجازت نامہ عدالت میں پیش نہ کر سکے۔ جسٹس جواد کہا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں بھی آئین کی عمل داری کو یقینی بنانے کیلئے جنگ کی کی جا رہی ہے جبکہ اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر بھی قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ آئین نے عدالت کو نیوٹرل امپائر مقرر کیا ہے، آئین کے تحت کسی بھی معاملے میں عدالت کے سوا کوئی بھی نیوٹرل امپائر کا کردار ادا نہیں کر سکتا، آئین پر عمل میں ہی ہماری بقاء ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ثالث نہیں اور نہ ثالثی کریں گے، جج ہیں اور قانون کے مطابق معاملہ حل کرنے کا اختیار ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئین کے مطابق نہیں، لوگ ڈنڈے اور ہتھوڑے اٹھا کر آ جائیں تو آئین کی بات ختم ہو جاتی ہے، سب کچھ تاریخ کے اوراق میں لکھا جا رہا ہے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میری گاڑی پر پتھرائو ہوا ہے آپ نے آئین پر چلنا ہے یا نہیں۔