فوج کی طرف سے تردید اور وضاحتوں کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان کی ماضی قریب کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ فوج کو اپنے اور آئی ایس آئی کے خلاف سیاست میں ملوث ہونے کے الزامات کی تحریری وضاحت اور تردید جاری کرنا پڑی ہو۔ سینئر صحافیوں کا البتہ کہنا ہے کہ 70ء کی دہائی میں جب ملک سیاسی انتشار کا شکار تھا اس وقت فوج کی طرف سے ایسی وضاحتیں جاری کی جاتی تھیں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کی پشت پناہی کرنے کے حوالہ سے مخدوم جاوید ہاشمی کے الزامات کے چند ہی گھنٹوں بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے باضابطہ وضاحت خبررساں اداروں کو ارسال کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے انگریزی زبان میں بنائے گئے بیان میں تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کا نام لئے بغیر ان کی طرف سے عائد کئے الزامات کا مختصر انداز میں جواب دیا گیا ہے۔ بیان میں حوالہ دینے کیلئے نرم زبان استعمال کی گئی ہے اور انگریزی میں ’’الزام تراشی‘‘ کیلئے مستعمل لفظ استعمال کرنے کے بجائے ’’دعوؤں‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا گیا ’’آئی ایس پی آر ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے‘‘ بیان کی آخری سطور میں اتحاد اور ساکھ کو فوج کی طاقت قرار دیا گیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ فوج کے اتحاد کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ میڈیا میں تواتر سے لکھا اور کہا گیا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ دھڑوں نے ان دھرنوں کا سکرپٹ لکھا ہے۔ دھڑوں کا ذکر فوجی اسٹیبلشمنٹ میں اختلافات کا پتہ دیتا ہے اسلئے اتحاد اور بعدازاں ساکھ کے الفاظ بھی بیان میں شمال کئے گئے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کیلئے یہ صورتحال بطور خاص تکلیف دہ ہو سکتی ہے کیونکہ انہوں نے صرف نو ماہ پہلے آرمی چیف کا منصب سنبھالا اور ان کی عمومی شہرت یہ ہے کہ وہ خالص سپاہی ہیں۔ جنرل راحیل ذاتی طور پر اپنی شخصی اور پیشہ ورانہ ساکھ کے بارے میں بہت حساس ہیں لیکن کمانڈ کے پہلے ہی سال انہیں بہت بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ فوجی چیلنج کا تو انہوں نے عمدگی سے سامنا کیا اور شمالی وزیرستان میں کامیاب فوجی کارروائی کے نتیجہ میں ٹی ٹی پی کی کمر توڑ دی۔ بیرونی سلامتی کے شعبہ میں انہوں نے فوج کو کسی بھی چیلنج کیلئے تیار رکھا ہے جبکہ داخلی سلامتی کے شعبہ میں بھی فوج عمدہ کردار ادا کر رہی ہے لیکن اسلام آباد کے سیاسی بحران سے فوج دامن نہیں چھڑا سکی۔ شاہراہ دستور پر امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث پہلے فوج کو مظاہرین کیلئے تحریری وارننگ جاری کرنا پڑی۔ اگلے مرحلہ میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی جب آرمی چیف کو عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ راولپنڈی میں ملاقات کرنا پڑی، فوج بتدریج اس صورتحال کا حصہ بنی۔ آرمی چیف کی ان کوششوں پر سیاسی برادری کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا اور یہ تنازعہ پیدا ہو گیا کہ حکومت یا دھرنوں والی جماعت نے آرمی چیف سے سیاسی کردار کیلئے رابطہ کیا۔ جنرل راحیل اس تنازعہ کے باعث بھی بدمزہ ہوئے لیکن ان کیلئے ان حالات سے الگ ہونے کا کوئی موقع نہیں تھا اور اب پیر کی شام جاوید ہاشمی کے انکشافات نے فوج کو باقاعدہ وضاحت کرنے پر مجبور کر دیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ظہیرالسلام کیلئے بھی یہ برس ناخوشگوار صورتحال لے کر آیا۔ پہلے انہیں میڈیاکے ایک طاقتور گروپ کے ساتھ تنازعہ میں فریق بننا پڑا۔ الزامات کا سامنا کیا اور اب مزید ایک غیر پیشہ ورانہ معاملہ میں انہیں مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔