• news

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

 میرے محبوب و مرشد مجاہد صحافت پاکستان اور نظریہ پاکستان کے پاسبان مجید نظامی کے قریبی خاص دوست جسٹس آفتاب فرخ نے دعوت دی کہ ان کے چہلم میں حاضری دو۔ تو میں بے قرار ہو گیا کہ انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے چالیس دن گزر گئے ہیں۔ مجید نظامی سے زیادہ ہمارا اپنا کون تھا؟ کئی لوگوں کا ان سے براہ راست نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور نوائے وقت سے تعلق نہ تھا۔ انہوں نے بھی کہا کہ ہم یتیم ہو گئے ہیں۔ ہمیں جب مشکل پڑتی تھی تو ہم کہتے تھے کہ مجید نظامی موجود ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ مجید نظامی کے لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ میرے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ہمارے ہیں۔ شاعر دلنواز شعیب بن عزیز نے کہا
کوئی روکے کہیں دست اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
مجید نظامی سے بڑا کوئی ہمارا نہ تھا۔ وہ ہمارے ہیں اور ہمیشہ ان کی طرف سے حوصلوں اور ولولوں کی فوج ہمارے ساتھ ساتھ رہے گی۔ میں یہ کہوں کہ لمحہ موجود میں وہ پاکستان کے سب سے بڑے آدمی تھے تو اس میں یقین و ایمان کے سارے قرینے موجود ہیں۔ ان کی زندگی ہی میں ان کے لئے میں نے کہا تھا کہ مجید نظامی کی خوشامد بھی جائز ہے۔
ان کے گھر پر کئی دفعہ مجھے حاضری کا موقع ملا۔ ان کی تعزیت کے لئے رمیزہ نظامی کے پاس برادرم شاہد رشید کے ساتھ حاضر ہوا۔ یہ عجیب حسن اتفاق کی بات ہے کہ میں وہیں بیٹھا جہاں مجید نظامی سے ملاقات کے دوران بیٹھا کرتا تھا اور رمیزہ نظامی اسی صوفے پر آ کے بیٹھ گئیں جہاں مجید نظامی بیٹھا کرتے تھے۔ وہ ان کے منصب کی وارث ہیں۔ انہوں نے اس ملاقات میں یہ کہہ کر ہمارے دل میں مجید نظامی کی محبت کے چراغ کی روشنی کو اور تیز کر دیا کہ میں مجید نظامی کے ہر معاملے کی حفاظت کروں گی جو وہ چھوڑ کے گئے ہیں اور ان کے حوالے کر گئے ہیں۔ ”نوائے وقت انشاءاللہ نوائے وقت رہے گا“ اور یہ پچھلے دنوں میں ثابت بھی ہو گیا ہے کہ سب کچھ اسی طرح سے ہوتا رہے گا جس طرح نظامی صاحب چاہتے تھے۔
رمیزہ نظامی مجید نظامی کے لئے چہلم کی گھریلو تقریب میں مردوں والے حصے میں آئیں تو اس خوشبو کا جھونکا محسوس ہوا جو مجید نظامی کی ذات کی خوشبو سے بھرے ہوئے اس کتابوں والے کمرے میں رچ بس گیا ہے۔ اللہ اس خوشبو کو قائم و دائم رکھے اور نظامی صاحب سے محبت کرنے والے لوگوں کے دلوں کو مہکائے رکھے۔ اس موقع پر میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خانِ اعظم منیر نیازی کا یہ شعر مجید نظامی کے حضور پیش خدمت ہے
کل دیکھا اک آدمی اٹا سا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
جسٹس آفتاب فرخ آج بھی مجید نظامی کی محبت کو انجوائے کر رہے ہیں۔ یہ ان کے ساتھ رفاقت اور عقیدت کا اجر ہے جو انہیں مجید نظامی کی زندگی میں نصب ہوا۔ انہوں نے چند دوستوں اور مجید نظامی کے جانثاروں کو بلا لیا۔ صدر رفیق تارڑ کے علاوہ سجاد میر اور سلمان غنی بھی موجود تھے۔ رمیزہ نظامی آئیں تو انہوں نے صدر رفیق تارڑ کو آخر میں دعا کرانے کے لئے درخواست کی۔ میں ہمیشہ اب بھی تارڑ صاحب کے نام کے ساتھ صدر ضرور لکھتا ہوں۔ وہ صدر نہیں ہیں مگر میرے صدر ہیں۔ صدر مشرف کے زمانے میں تو وہ ہمارے صدر تھے۔ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ صدر ممنون کے لئے دل میں عقیدت ہے مگر اپنے بقایا صدارتی عرصے کے لئے صدر رفیق تارڑ کو صدر بنانا چاہئے تھا۔ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین بنائے گئے ہیں۔ اس کے لئے ڈاکٹر رفیق احمد‘ جسٹس آفتاب فرخ‘ رمیزہ نظامی‘ شاہد رشید‘ فاروق الطاف اور خاکسار کی رائے میں ان سے بہتر آدمی اس منصب کے لئے نہ تھا۔ یہ بھی مجید نظامی کی جانشینی ہے جو صدر رفیق تارڑ کا اعزاز بن گئی ہے۔ نظامی صاحب تارڑ صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ صدر رفیق تارڑ نے بہت دلسوزی اور درد مندی سے دعا کرائی۔ سارے ماحول کے لئے رمیزہ نظامی نے ذاتی طور پر نگرانی اور مہمان نوازی کی۔ یہ بھی نظامی صاحب کی رفاقتوں اور عقیدتوں کا ثمر ہے کہ جسٹس آفتاب فرخ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے ہمیشہ جسٹس صاحب کو مجید نظامی کے ساتھ ساتھ دیکھا۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ عدالتی مصروفیات کے بعد نوائے وقت میں مجید نظامی کے پاس حاضر نہ ہوئے ہوں۔ وہاں بھی ان سے بارہا ملاقات ہوئی۔ میری بیٹی تقدیس نیازی کی شادی میں بھی مجید نظامی جسٹس آفتاب فرخ کے ساتھ تشریف لائے۔
چہلم کی گھریلو تقریب کے علاوہ لاہور کراچی اسلام آباد اور ملتان میں نوائے وقت کے دفاتر میں چہلم کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ جہاں قرآن خوانی ہوئی۔
ہم دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کی باتیں چلتی رہتی ہیں چند دن پہلے ہمارے چیف نیوز ایڈیٹر برادرم دلاور چودھری نے ایک بہت خوبصورت تحریر لکھی جس میں مجید نظامی کو اپنا لیڈر قرار دیا گیا ہے۔ کئی لوگ آئے جنہوں نے اپنی زمین کو سرزمین بنایا اور پھر زیر زمین چلے گئے مجید نظامی نے اپنی سرزمین کو پاک سرزمین بنانے میں زندگی وقف کر دی۔ مرزا غالب کی طرح ہم بھی غالب مغلوب بنے ہوئے ہیں۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گرا نمایہ کیا کئے

ای پیپر-دی نیشن