”تُم کِتنے بھانڈے پھوڑو گے؟“
مِرزا غالب نے کہا تھا....
”کُھلتا کسی پہ کیوں مرے دِل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رُسوا کِیا مجھے!“
دِل کا معاملہ کھولنے کے لئے جب شعروں کے انتخاب میں احتیاط نہ کی جائے تو رُسوائی تو ہوگی۔ غالب کے دَور میں اخبارات کا طُومار اور نیوز چینلوں کی بھر مار ہوتی اور اُنہیں ہر روز کالم لِکھنا پڑتا تو وہ میری اور میرے ہم عصر کالم نویسوں کی طرح چکرا جاتے اور کہتے کہ....
”خبروں کے انتخاب نے چکرا دِیا مجھے!“
بہت سی خبریں تھیں لیکن جناب جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس اور ٹیلی ویژن انٹرویو کئی لوگوں کی رُسوائی کا باعث بنا اور شاید جنابِ ہاشمی کے لئے بھی۔ ہاشمی صاحب بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ....
”مرا مزاج لڑکپن سے باغیانہ ہے !“
ہر دَور کی حکومت اور اپنی پارٹی کے خلاف بغاوت کرنا موصُوف کی عادت بن چُکی ہے۔ نامور شاعر مُنیر نیازی نے تو اپنے بارے میں اعتراف کر لِیا تھا کہ....
”عادت ہی بنا لی ہے تُم نے تو مُنیر اپنی !“
جس شہر میں بھی رہنا ¾ اُکتائے ہُوئے رہنا!“
مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف بہت طاقتور ہیں لیکن چیئرمین راجا ظفرالحق محض نمائشی اِس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین جناب عمران خان طاقت کا سرچشمہ ہیں اور جناب جاوید ہاشمی محض نمائشی۔ ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ” مَیں پاکستان تحریکِ انصاف کا صدر ہُوں۔ عمران خان مجھے نہیں نکال سکتے“۔ جناب ِہاشمی پاکستان عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کو جناب عمران خان سے دُور کرنا چاہتے تھے لیکن عمران خان نے ¾ ہاشمی صاحب کو اپنی بزم سے اُٹھا دِیا۔ مِرزا غالب کو بھی اِسی طرح کی صُورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ....
”مَیں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہئے غیر سے تہی!
سُن کے سِتم ظرِیف نے مجھ کو اُٹھا دِیا کہ یوں؟“
جناب جاوید ہاشمی نے کہا کہ ”عمران خان "Badge" والوں کے کہنے پر علّامہ القادری کے پِیچھے چل رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ”اگست یا ستمبر میں نئے انتخابات ہوں گے اور مَیں وزیراعظم بن سکوں گا۔ ہماری مرضی کا چیف جسٹس بھی آرہا ہے“۔ جناب ِہاشمی نے کہا کہ ”مَیں نے عمران خان سے اختلاف کِیا“۔ جناب جاوید ہاشمی کے خیالات کو نظم میں بیان کرتے ہُوئے۔ ”شاعِرسیاست“ کہتے ہیں کہ....
”یونہی پڑے ہیں ”پی ایم“ کی نوکری کے پِیچھے
نہ مولوی کے پیچھے نہ پادری کے پِیچھے!
کیا ہے اُگا اِمامِ حِیلہ گری کے پِیچھے؟
عمران چل رہے ہیں القادری کے پِیچھے“
تجزیہ کاروں / نگاروں کا کہنا اور لِکھنا ہے کہ ”جنابِ ہاشمی نے جناب عمران کا بھانڈا پھوڑ دِیا ہے“۔ ہِندی اور پنجابی زبانوں میں برتن کو ”بھانڈا“ کہتے ہیں۔ جو اُردُومیں بھی مُستعمل ہے۔ ”بھانڈا پھوڑنا“ کا مطلب ہے بھید کھولنا یا افشائے راز کرنا۔ حضرتِ داغ دہلوی کہتے ہیں....
”غیر کیوں بھید سے واقف ہوتا ؟
میرے ہم راز نے بھانڈا پھوڑا!“
اُدھر شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ ”مخدوم جاوید ہاشمی جب جنرل ضیااُلحق کی مارشل لائی کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے حلف اُٹھانے کے لئے گئے تھے تو وہ میرا سُوٹ لے گئے تھے“۔ یعنی وزارت جنابِ ہاشمی کی تھی اور سُوٹ شیخ صاحب کا شیخ صاحب اکثر کہا کرتے ہیں کہ ”مَیں شیخ ہوں خسارے کا سودا کبھی نہیں کرتا“۔ شیخ رشید احمد نے جاوید ہاشمی کو اپنا سُوٹ تحفے میںدِیا تھا یا اُدھار؟۔ ”اب سُوٹ کا تذکرہ کر کے شیخ صاحب نے ہاشمی صاحب کا بھانڈا پھوڑدِیا ہے۔ ”کشکول“ کو پنجابی میں ”ٹھُوٹھا“ کہتے ہیں۔ سیّد وارث شاہ کی منظوم کہانی ”ہِیررانجھا“ کے مطابق کہانی کا ہِیرو ” رانجھا“ جب جوگی کے بھیس میں اپنی محبوُبہ ”ہِیر سیّال“ سے ملنے اُس کے سُسرال گیا اور اُس نے بھیک مانگنے کے لئے اپنا ٹھُوٹھا آگے کِیا تو ہِیر کے ہاتھ سے گِر کر وہ ٹھُوٹھا ٹوٹ گیا۔ اِس پر رانجھا سے معذرت کرتے ہُوئے ہِیر نے کہا کہ....
”گیا بھجّ تقدِیر دے نال ٹھُوٹھا!
ساتھوں قِیمت لے جا، مٹّ دی وے!“
یعنی اے رانجھ! اتفاقاً (تقدِیر سے) تمہارا ٹھُوٹھا میرے ہاتھوں سے گِر کر ٹُوٹ گیا ہے۔ مَیں اِس کی تلافی کرنے کو تیارہُوں۔ تُم اپنے ٹھُوٹھے کے بدلے مُجھ سے ”مٹّ“ (بڑے گھڑے) کی قِیمت لے لو!“۔ رانجھا کو عِلم تھا کہ ہِیر کے ہاتھوں اُس کا ٹھُوٹھا (بھانڈا) اتفاقاً ٹُوٹ گیا ہے۔ بھلا وہ اپنی محبوُبہ سے اُس کا معاوضہ کیسے لے سکتا تھا؟ لیکن جنابِ ہاشمی نے تو جان بُوجھ کر عمران خان کا بھانڈا پھوڑا ہے پھر وہ ٹُوٹے ہُوئے بھانڈے کے عِوض عمران خان کو مٹّ کی پیشکش کیوں کریں گے؟ یہ الگ بات کہ کوئی بھی پٹھان اپنا نقصان کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا ۔
اب رہا شیخ رشید احمد کے سُوٹ کا معاملہ؟ اگر ہاشمی صاحب نے شیخ صاحب کا سُوٹ اُدھار لِیا تھا تو انہیں چاہئے کہ 36/35 سال قبل کی سُوٹ کی قیمت کے برابر رقم ادا کر دیں اور اگر وہ تحفہ تھا تو خیر ہے۔ شیخ صاحب کو یہ وضاحت بھی کرنا ہوگی کہ انہیں اِس سودے میں کیا منافع ہُوا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب کوئی شیخ خسارے کا سودا نہیں کرتا تو ”شیخ اُلاسلام“ علّامہ طاہراُلقادری خسارے کا سودا کیوں کریں گے؟۔ کئی سیاستدانوں اور مذہبی رہنماﺅں نے کئی بار علّامہ القادری کے تقدّس کا بھانڈا پھوڑا ہے لیکن ¾ موصُوف اِس لئے "Mind" نہیں کرتے کہ اُن کی بھانڈوں کی کئی فیکٹریاں ہیں۔ جناب جاوید ہاشمی روایتی عاشقوں کی طرح سیاست کرتے ہیں۔کبھی کبھی جنونِ سیاست میں اپنا سر بھی پھوڑ لیتے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحب نے جناب ِ ہاشمی کے ”بھانڈا پھوڑنے“ کے عمل سے اعلانِ لاتعلقی کر دِیا ہے۔ ہر سیاستدان اور مختلف شعبوں کے ممتاز رہنما کے گھر میں تو لاتعداد بھانڈے ہوتے ہیں اور ہر کوئی بھانڈا پھوڑنے والے کو چیلنج کر سکتا ہے کہ....
”مرے گھر میں ہزاروں بھانڈے ہیں!
تُم کِتنے بھانڈے پھوڑو گے؟“