• news

پارلیمنٹ پر حملہ قبول نہیں‘ طاہر القادری سے مظاہرین کو روکنے کیلئے کہا تھا: شاہ محمود‘ یہ عوامی تحریک پر فرد جرم ہے: خورشید شاہ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر/خبر نگار) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ارکان نے کہا ہے کہ وزیراعظم اب خود استعفیٰ دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے متمنی، اب اس کام کیلئے پارلیمنٹ سے رجوع کریں۔ نواز شریف مستعفی نہیں ہوں گے بلکہ اپنی مدت پوری کریں گے۔ پارلیمنٹ کو گولیوں کا نشانہ بنانے والوں کی سیاست یہیں دفن کر دی جائے گی۔ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے پیچھے کھڑے ہیں اور پارلیمنٹ کو بے توقیر نہیں ہونے دیا جائیگا۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تاخیر سے شروع ہوا اور پہلے مقرر عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تحفظ کیلئے وزیراعظم اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مولانا صوفی محمد کی طرح طاہر القادری کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، دھرنوں کی سیاست میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کو دنیا بھول گئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا انعقاد خوش آئند ہے، 18 ویں ترمیم سے صوبوں کی شکایات کا کافی حد تک ازالہ ہوا، اب اس کے خلاف بھی سازش ہو رہی ہیں، پاکستان ٹیلی ویژن کو کل برباد کیا گیا خیبرپی کے میں الیکشن نہیں سلیکشن کی گئی، ہم نے شہیدوں کے جنازے اٹھائے اور الیکشن بھی ہروا دیا گیا، دھاندلی تو ہمارے صوبہ میں ہوئی۔ تحفظات کے باوجود ہم نے انتخابی نتائج کو قبول کیا، ارکان اسمبلی کے خلاف جو باتیں اب ہو رہی ہیں وہ پہلے نہیں کی گئیں۔ خیبر پی کے کا وزیر اعلیٰ اپنا صوبہ چھوڑ کر اسلام آباد پر قبضہ کرنے آیا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو نے کہا چینی صدر نے اگر دھرنوں اور احتجاج کے باعث دورہ پاکستان منسوخ کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ دھرنے اور احتجاج ریاست کے خلاف ہیں، سانحہ ماڈل ٹائون کو بہانہ بنا کر پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، پیر صاحب گولڑہ شریف ان دونوں جماعتوں سے بڑھ کر دس لاکھ افراد بھی جمع کر سکتے ہیں، پارلیمنٹ میں قبریں کھودنے اور کفن پہننے کی باتیں کرنے والوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کی سیاست اسی پارلیمنٹ میں دفن کر دی جائے گی۔ مائوزے تنگ اور اس کے وزراء نے برسوں ایک ہی کپڑا پہنا، قومی وطن پارٹی کے پارلیمانی لیڈر آفتاب احمد خان شیرپائو نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کا تقدس مجروح کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، نئے پاکستان کا سکرپٹ کسی پرانے پاکستانی نے لکھا، محمد نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور رہیں گے۔ ہم ایوان میں ایسے دروازوں سے آ رہے ہیں جو آج تک ہم نے دیکھے نہیں تھے ۔ پارلیمنٹ کے باہر ایک تماشا لگا ہوا ہے، خیبرپی کے میں کوئی حکومت نہیں، وزیراعلیٰ اپنے پروٹوکول کے ساتھ یہاں آئے اور یلغار کی، پارلیمنٹ کے اندر ایک مشترکہ اجلاس ہوا تو باہر دو بھائیوں نے ہاتھ ملا لئے، اس کے تانے بانے لندن سے ملتے ہیں، دھرنے میں دو اڑھائی ہزار لوگ رہ گئے ہیں، تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایک ایس پی کو ڈنڈے مارے، یہ بہت شرم کی بات ہے۔ وکلاء اور صحافیوں پر پیسے لینے کا الزام لگایا گیا، جو بھی ان کے خلاف ہے یہ ان پر الزام لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو ایوان میں اس وقت اظہار خیال کا موقع دیا جائے جب وہ اسمبلی کو جعلی کہنے والے الفاظ اور جملے واپس لیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے مستعفی نہ ہونے والے ارکان ناصر خٹک، مسرت زیب اور گلزار خان کے فیصلے کو اچھا قرار دیتے ہوئے انہیں مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ دھاندلی کے الزامات کے ثبوت ہمیں بھی دکھا دئیے جائیں تو شاید ہم بھی استعفیٰ دے دیں۔ ارکان نے نواز شریف پر زور دیا کہ وہ کسی صورت استعفیٰ نہ دیں۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پائو نے واضح کیا ہے کہ استعفیٰ دینا وزیر اعظم کے نہیں پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے، میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نہیں ہم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ آئی پی ڈی پیز کے مسئلے کو کوئی اجاگر نہیں کررہا۔ پارلیمنٹ موجود ہے وزیراعظم اپنی کرسی پر براجمان ہیں اور یہ وزیر اعظم چار سال اسی کرسی پر رہیں گے۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ ایوان کی توہین ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ کو 18ویں ترمیم ہضم نہیں ہورہی۔ آئین ختم کیا گیا تو پاکستان کو دوسرا آئین دینے والا کوئی نہیں۔ افواج پاکستان ادارے کو سیاست میں ملوث کر نے والوں کو شٹ اپ کال دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان بچانے کیلئے قربانیاں دی ہیں یہ ملک بغیر جمہوریت کے نہیں چل سکتا۔ وزیراعظم کے ساتھ یہ ایوان آئین اور جمہوریت بچانے کیلئے کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں جاوید ہاشمی کو سلام پیش کرتا ہوں، پارلیمنٹ فیڈریشن کی علامت ہوتی ہے، وزیراعظم کو پارلیمنٹ کو اہمیت دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ خدارا فوج کو سیاست میں ملوث نہ کریں۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ کفن پہننے اور قبریں کھودنے کی بات کرنیوالے کیا پارلیمنٹ کو قبرستان بنانا چاہتے ہیں، ایسی باتیں کرنے والوں کو ہمارا پیغام ہے کہ ہم ان کی سیاست کو یہیں دفن کر دینگے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری قوتیں ہونگی تو دائیں بائیں ضرور دیکھ لے۔ افغانستان تیس سال کی جنگ کے بعد آج جمہوری افغانستان کے طور پر جنم لے رہا ہے۔ محمود اچکزئی نے ریاستی اداروں پر حملے کیخلاف قرارداد لانے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اپوزیشن والے قرارداد پر شاہ محمود قریشی کے بھی دستخط لیں۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ دھرنے والے ڈنڈا بردار سیکرٹریٹ پر پولیس افسران کی تلاشی لے رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے حملے والے واقعات کو کہنے کی حد تک غلط کہا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ، سیکرٹریٹ اور پی ٹی وی پر حملے کیخلاف قرارداد لائی جائے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی کا ایوان میں آنا پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا ہے جو ایوان کی بڑی کامیابی ہے، بات چیت کا راستہ کبھی بند نہیں ہوتا ، سیاست نام ہی دوسرے کی بات سننے کا ہے، اسمبلی کی قرارداد حکومت کے لئے ڈھال بن گئی،ایک پارٹی کالیڈر  دوسری جماعت پر فرد جرم عائد کرگیا ہے یہ ایف آئی آر کے اندراج میں آپ کو فائدہ دے گا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ آج اپوزیشن کی جیت ہوئی آپ کے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ آخری فتح صبر کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے استعفیٰ نہیں دیا اور ڈٹے رہے، سیاست ہوتی ہے  جو بے نظیر بھٹو سے سیکھی شاہ محمود قریشی پارلیمنٹ کو تسلیم کرکے گیا۔ میڈیا پارلیمنٹ کی کامیابی کا اعلان کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو بلایا اور دوسرے  دن اس کا نتیجہ آیا پارلیمنٹ نے جنگ کی اور قرارداد منظور ہوئی اور یہ حکومت کے لئے ڈھال بن گیا ہے  وقت آگیا ہے کہ کامیابی پر پانی نہ پھیریں استعفیٰ  ہوگیا تو ایسا نہ ہو بارش آجائے سازش ابھی بھی ہورہی ہے ۔ سیاست میں جذبات میں نہیں ہوتے  سیاستدان کے پاس مثبت جذبات ہونے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے طاقت ہوتے ہوئے صبر وتحمل کا درس دیا ہے، وہ درس اپنی کابینہ کو بھی دیں انہوں نے کہا کہ آج کا دن پارلیمنٹ جمہوریت کی کامیابی کا دن ہے اس کو ضائع نہ کریں۔ انکا کہنا تھا کہ شاہ محمود نے عوامی تحریک پر فردجرم عائد کر دی ہے اور اسی طرح سے دھرنے والی جماعتوں میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ این این آئی کے مطابق مولانا فضل الرحمان، خواجہ آصف اور دیگر سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تحمل سے کام لیں۔ سید خورشید شاہ نے کہاکہ مولانا صاحب! میاں صاحب کے دوست بنیں، مشکلات نہ بڑھائیں خواجہ آصف صاحب جذبات سے کام نہ لیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ شاہ محمود قریشی عوامی تحریک پر فرد جرم عائد کر کے چلے گئے، شاہ محمودقریشی نے پارلیمنٹ پر حملے میں عوامی تحریک کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس موقع پر انہوں نے فضل الرحمان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ نے جاوید ہاشمی کا استقبال کیوں کیا، دہرا معیار نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جاوید ہاشمی کو بولنے کی اجازت ملی ہے تو شاہ محمود قریشی کو بھی ملنی چاہئے تھی، ہم معاملات کے حل کی طرف جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ ایک طاقتور وزیراعظم بن کر ابھرے ہیں اور یہ پارلیمنٹ آگ سے کندن بن کر نکلی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے سپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ وہ قرارداد لکھیں اور اس پر شاہ محمود قریشی سے دستخط کروائیں اور اس سے پہلے مذاکرات نہ کیے جائیں۔ اے این پی کے رہنما عبدالنبی بنگش نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کو بتانا ہو گا کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو درخواست کر کے بلایا گیا یا پھر وہ خود اسے نافذالعمل کر کے ہمارے سروں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج بھی وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے۔ عبدالنبی بنگش نے پی ٹی وی پر حملے کے بعد فوج کی جانب سے کسی بھی حملہ آور کو گرفتار نہیں کیا گیا مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ہم نے لانگ مارچوں کو لاہور سے اسلام آباد آنے کی اجازت دینے کی مخالفت کی تھی حکومت نے انہیں کیوں نہیں روکا؟ سارا ایوان اس پر متفق ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو استعفیٰ نہیں دینا چاہئے یہ صرف بیس 25 ہزار لوگ ہیں آرٹیکل 16 کی خلاف ورزی کی گئی ہے حکومت نے چھ میں پانچ مطالبات تسلیم کر لئے ہیں لیکن اس ایوان کی جو بے عزتی ہوئی ہے وہ ناقابل برداشت ہے 18 د ن سے تمام کاروبار زندگی معطل ہے وزیر داخلہ ایوان کو بتائیں کہ ان دھرنوں سے ملک کو کتنا معاشی نقصان ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اے این پی کے سینیٹر عبدالنبی بنگش سپیکر کی طرف سے بات نہ کرنے کا موقع نہ ملنے پر طیش میں آ گئے اور دھمکی لگائی کہ اگر مجھے بات کرنے کی اجازت نہ دی گئی تو کسی کو نیں بولنے دوں گا۔ انہوں نے ہنگامہ آرائی شورع کی جس پر لیگی ارکان اے این پی کے سینیٹر کو پکڑ کر نشست پر بٹھانے کی کوشش کرتے رہے تاہم وہ انہیں چپ نہ کرا سکے اور سپیکر کو ان کو موقع دینا پڑا۔ انہوں نے دھرنے دینے والوں پر شدید تنقید کی اور کہاکہ پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کو کیوں کچھ نہیں کہا گیا۔ دریں اثناء جمعیت علمائے اسلام (ف )کے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جس یکجہتی کا اظہار کیا گیاوہ انتہائی قابل تحسین ہے اس وقت ایوان کا جو موقف سامنے آیا ہے وہ ہمارے کچھ ارکان کا ایوان میں آ کر تقریر کرنا ہے، شاہ محمود قریشی سے میرا احترام کا رشتہ ہے ان کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معاملات کو حل کرناچاہتے ہیں بنیادی بات یہ ہے کہ کیا انہیں آج پارلیمنٹ میں بات کرنے کا حق حاصل ہے کیا وہ اس کیلئے اجنبی ہیں اگر سپیکر نے استعفیٰ کا لفافہ کھول لیا تو پھر کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ وہ لوگ مستعفی ہوچکے، ان کو سابق رکن قومی اسمبلی کہنا چاہئے سب کو انتظار تھا کہ سپیکر ان سے کہیں گے کہ آپ مستعفی ہوچکے ہیں یہاں نہیں آسکتے اب یہ ابہام پیدا ہوچکا ہے کہ کیا ان لوگوں کو یہاں آ کر بات کرنے کا حق تھا ؟ خورشید شاہ اجلاس سے شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران ارکان کو مداخلت سے روکتے رہے، خطاب کے دوران ارکان نے شور مچایا تو قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے ارکان سے اپیل کی کہ ایوان کا تقدس یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کی بات تحمل سے سنی جائے۔ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ پارلیمنٹ پر حملہ تحریک انصاف نے نہیں پاکستان عوامی تحریک نے کیا ہے جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ خود کو عوامی تحریک سے الگ کرنا چاہتے ہیں، اسی لئے ہم چاہتے تھے کہ تحریک انصاف کے استعفے قبول نہ کئے جائیں۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا ہے کہ جو لوگ پارلیمان پر حملے میں ملوث ہوئے انہوں نے آئین توڑا اور قانون شکنی کی لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، برف پگھلنا شروع ہو گئی اس لئے ہمیں صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ جو کچھ دھرنے والوں نے کیا وہ اس پر پشیمان ہیں، ہم سب نے سپیکر سے درخواست کی کہ استعفیٰ کے معاملے کو التواء میں ڈال دیں، اس کے بعد پارلیمان پر حملہ ہوا، جو لوگ پارلیمان پر حملے میں ملوث ہوئے انہوں نے آئین توڑا اور قانون شکنی کی لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، یہ بھی قانون شکنی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا جرگہ انکے پاس گیا ہے، ماحول کو ٹھنڈا رکھا جائے، اس بات پر پورا ایوان متفق ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ نہ دیں اگر یہ روایت پڑ گئی تو کل ہارا ہوا کوئی اور امیدوار آ کر جیتے ہوئے ایم این اے سے استعفیٰ مانگے گا۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ ہماری ماں ہے۔نیشن کے مطابق تحریک انصاف کے استعفے منظور کرنے پر پارلیمنٹ تقسیم ہو گئی۔خورشید شاہ استعفے قبول کرنے کے مخالف ہیں جبکہ فضل الرحمن منظور کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں
اسلام آباد (خبرنگار+نیوز ایجنسیاں) تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف مذاکرات کے لئے تیار ہے وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں اپنی انا مٹاکر ذاتی پسند ناپسند کی بات نہیں کرنی چاہیے، ہم معاملات حل کرنا چاہتے ہیں، پارلیمنٹ میں صرف اس لئے آئے ہیں تاکہ پارٹی کا موقف ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ بنا سکیں، پارٹی نے فیصلہ کیا ہے سیاسی جرگہ کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایوان میں صرف اپنی جماعت کا نکتہ نظر پیش کرنے کے لئے آئے ہیں جو بات میڈیا میں کہی جائے اس کی بھی اہمیت ہے مگر ایوان میں کہی ہوئی بات تاریخ کا حصہ ہوتا ہے، ہم اپوزیشن لیڈر، حاصل بزنجو  سمیت دیگر ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو مذاکرات کے لئے آئے، آج ایک اہم لمحہ ہے جہاں ہم سیدھی راہ پر بھی جاسکتے ہیں اور بھٹک بھی سکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کچھ لوگ جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں، ہمیں ایوان سے اختلاف نہیں، اس ایوان پر کوئی بھی حملہ آور ہو ہمیں گوارہ نہیں، ہم نے اپنے ہزاروں کے مجمع کو کہا کہ پارلیمنٹ کی طرف نہیں بڑھنا، میں سیاسی کارکن ہوں مظاہرین سے درخواست ہی کرسکتا ہوں انہیں کمانڈ نہیں کرسکتا۔ ہم اس ایوان کو جلانے نہیں آئے بلکہ بچانے کے لئے آئے ہیں کیونکہ یہ ہمارا سیاسی کعبہ ہے۔ عمران خان میری پارٹی کے لیڈر ہیں اس پر مجھے فخر ہے مگر میری تربیت میں بے نظیر بھٹو کا بھی حصہ ہے، 1970کے بعد پاکستان میں جتنے انتخابات ہوئے متنازعہ ہیں۔ یہاں یہ تاثر ہے کہ ہم کسی گرینڈ پلان پر عمل کررہے ہیں اور یہ سب سکرپٹ کا حصہ ہے، تحریک انصاف جمہوریت کیخلاف کسی بھی گرینڈ پلان کا حصہ نہیں، آج ہم اس نہج پر کھڑے ہیں، اگر ٹھنڈے دل سے سوچیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک دن کی بات نہیں 17دن سے دھرنوں کا نہیں بلکہ یہ 14ماہ کی بات ہے۔ تیسرے فریق کو دعوت ہم نہیں دیتے یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ کس نے کس کو مصالحت کی دعوت دی۔ ملک میں غیر معمولی حالات ہیں ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی لوگ پریشان ہیں، سیاسی پنڈت کہتے تھے کہ الیکشن ہوئے عرصہ گذر گیا اب کیا ہوگا مگر ہم نے یہ غلط ثابت کیا، کیا سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے نہیں دیے، یہاں کہا گیا کہ یہ لوگ آئیں گے تو خون خرابہ ہوگا مگر ہم نے ثابت کیا کہ مارچ اور دھرنے کی وجہ سے ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹا۔ عمران خان نے پہلی تقریر میں چار حلقے کھولنے کی بات کی تھی، اس لئے الیکشن ٹریبونل گئے، سپریم کورٹ میں انصاف کے لئے گئے، مگر کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی، عمران خان نے بار بار کہا کہ اگر انصاف نہ ملا تو سڑکوں پر نکلیں گے، گوجرانوالہ میں ہم پر پتھر برسائے گئے، ملتان میں میرے گھر پر حملہ کیا گیا، اس کے باوجود ہم نہیں بپھرے، ایوان میرا گھر ہے، اپنے گھر پرکون حملہ کرسکتا ہے۔ ہم نے اپنے کارکنوں سے حلف لیا کہ کسی بلڈنگ میں نہیں جایا جائے گا، پھر ہم آگے بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ 17جون کو ماڈل ٹائون لاہور میں جو ہوا بہت برا ہوا، 80سے 90 افراد کے اوپر کے حصے میںگولیاں لگیں۔جب خبر ملی کہ پارلیمنٹ کاگیٹ توڑا گیا اور پارلیمنٹ کے لان میںداخل ہوئے تو میں نے کہا کہ یہ درست نہیں، جب پی ٹی وی پر حملہ ہوا تو عمران خان سورہے تھے بعد میں کنٹینر پر آئے تو انہوں نے کہا کہ وہاں سے نکل جائو۔، ہم نے پاکستان کا آئین بچانا ہے، ہمارے سو اختلافات ہوں گے مگر پاکستان کی خوشحالی پر کوئی اختلاف نہیں، ہم وزیر اعظم کے استعفیٰ کے نکتہ پر پھنس گئے ہیں، مگر ہم سیاستدان ہیں کوئی حل نکال لیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمان کا تحفظ ہمارا فرض ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آرٹیکل 245 کا استعمال حکومت کا حق ہے لیکن ہمارے ساتھ اپوزیشن کے کئی رہنماؤں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ اگر مارشل لا لگا تو ہم اس کی مذمت بھی کریں گے اور مزاحمت بھی کریں گے۔ شاہ محمود نے بتایا کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے پیغام دیا کہ آگے بڑھیں گے تو عمران خان نے کہا کہ حالات خراب ہو جائیں گے۔ طاہرالقادری کو کہا کہ پُرامن ماحول ہے، ایسا ہی رہنے دیں یہ ہماری فتح ہے۔ طاہرالقادری نے کہا کہ یہ مجمع اب نہیں رُک سکتا، یہ میری نہیں سنیں گے، ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ میں نے کہا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے والے فائدہ اُٹھائیں گے۔ طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں سے بات کرنے کیلئے مجھے بھیجا، ان کے لوگوں نے میری بات سننے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ لڑائی تحریک انصاف یا عمران کی نہیں ہر پاکستانی کی ہے۔ عمران فولادی نفسیات کا آدمی ہے۔ ماورائے آئین کسی اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ سوائے 3 بھگوڑوں کے سب عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان کو بااختیار بنانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کیلئے سڑکوں پر نکلے ہیں، منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ نہ چھیڑو ہمیں۔ شیرپاؤ کہہ رہے تھے کہ ڈھائی تین ہزار لوگ تھے۔ عمران آج پاکستان کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ ایک دن اس کنٹینر سے نکلیں گے عمران خان اکیلا بھی ہو تو عوام اس کی بات سنیں گے۔ اثاثوں کو نقصان پہنچانا تحریک انصاف کا ایجنڈا نہیں۔ قربانی مانگنا آسان ہے، قربانی دینا مشکل ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کا مؤقف پیش کرنے گیا تھا۔ تحریک انصاف کا ایک ایک کارکن چینی صدر کا والہانہ استقبال کرے گا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی سیاسی بصیرت کو سلام کرتا ہوں۔ کارکنان پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر آ جائیں اور کسی عمارت پر حملہ نہ کریں۔

ای پیپر-دی نیشن