سرکاری املاک اور سڑکوں پر قبضے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ دھاندلی کا خاتمہ‘ موجودہ صورتحال کا حل‘ سیاسی جماعتیں تجاویز دیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے و قت+ ایجنسیاں+ نیٹ نیوز) سپریم کورٹ نے متوقع ماورائے آئین اقدام کے حوالے سے مقدمے کی سماعت جمعہ تک ملتوی کرتے ہوئے دھاندلی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور موجودہ سیاسی صورتحال کے آئینی حل کیلئے پارلیمانی جماعتوں سے تجاویز چوبیس گھنٹے میں طلب کرلی ہیں۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے جوابات میں بتائیں کہ بنیادی حقوق کیا ہیں اور ان کی تشریح کیا ہے؟ انصاف کی فراہمی میں تعطل آرہا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ لکھ کر دیا گیا کہ سرکاری عمارات میں داخل نہیں ہوں گے۔ جسٹس ثاقب نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری عمارتوں اور سڑکوں کو نقصان پہنچانے اور قبضے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت حتمی فیصلہ دیگی تو بہت سے لوگوں کو بہت سی جگہیں خالی کرنا پڑینگی۔ تمام سرکاری دفاتر بند ہیں کیا بنیادی حقوق نہیں رہے۔ پارلیمنٹ میں کیا ہوتا ہے اس سے ہمیں غرض نہیں ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل بتائیں کہ دھرنوں سے معیشت کا کتنا نقصان ہوا ہے ذمہ داری کا تعین کرینگے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ عدالت نے دھرنوں کے شرکاء کی حفاظت پر اٹھنے والے اخراجات کی تفصیلات بھی مانگی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی جانب سے بیرسٹر اعتزاز احسن پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ ہائوس میں خیمہ بستی قائم کردی گئی ہے۔ حکومت چاہتی تو مظاہرین کو روک سکتی تھی مگر انہوں نے امن کیلئے ایسا نہیں کیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب تو شاہراہ دستور پر تھے وہاں پر کیسے پہنچ گئے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے تحریری یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ آگے نہیں جائینگے اور کسی سرکاری عمارت میں داخل نہیں ہوں گے اب کیوں ایسا کیا گیا؟ اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ تو دھرنا دینے والے ہی بتا سکتے ہیں بہرحال سیاسی جماعتیں مسئلے کا حل نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شیخ رشید احمد نے یقین دہانی کرائی کہ اب دھرنا پرتشدد یا انارکی نہیں پھیلائے گا کنٹینرز کی تنصیب سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے کہا کہ دھرنا دینے والی جماعتوں کے قائدین عدالت میں کچھ اور بیان دیتے ہیں جبکہ عدالت کے باہر ان کا رویہ بالکل برعکس ہے۔ شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین اپنے حقوق کے لئے اسلام آباد آئے ہیں۔ پولیس کی جانب سے شیلنگ کی وجہ سے مظاہرین نے پارلیمنٹ ہاؤس کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ شیخ رشید کو حکم دیں کہ وہ پارلیمنٹ ہاؤس کا احاطہ خالی کروائیں جس پر عدالت نے عوامی لیگ کے صدر کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کو کہا جس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی حکم ان دونوں جماعتوں کے قائدین تک پہنچا دیں گے۔ آئی این پی کے مطابق فاضل بنچ نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی معاملات چھوڑ کر قانونی پر فیصلہ دینے کا وقت آگیا ہے‘ پارلیمنٹ کے سربراہ سپیکر ہوتے ہے وہ مظاہرین کو پارلیمنٹ سے نکالنے حکم کیوں جاری نہیں کر رہے؟‘ احتجاج اور بنیادی حقوق کی حد ہوتی ہے‘ دنیا میں مظاہرین ٹریفک کی روانی بھی متاثر نہیں کرسکتے‘ امریکہ اور برطانیہ میں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا احتجاج یہاں ہورہا ہے‘ شیخ رشید بتائیں پارلیمنٹ کے احاطے میں بیٹھنا درست ہے‘ اعتزاز احسن اور شیخ رشید اپنا موقف دیں فیصلہ ہم کریں گے‘ کیا آئین کے مطابق ہے اور کیا نہیں؟۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عوامی تحریک کے وکیل نے عدالت کو لکھ کر دیا تھا مگر اس پر نہ صرف عمل نہیں ہوا بلکہ شاہراہ دستور کی تین لین سڑک خالی کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے احاطے پر قابض ہو گئے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ وہ غریب لوگ ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں وہاں ان کے بیٹھنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پھر ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان غریب لوگوں کو یہ اجازت بھی دیدیں کہ پارلیمنٹ کی عمارت پر بھی قبضہ کر لیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ اگر عدالت مظاہرین کیخلاف کریک ڈاؤن نہ ہونے کی یقین دہانی کرائے تو وہ پارلیمان کا احاطہ خالی کر کے باہر آسکتے ہیں۔