اعتزاز احسن نے” مُشاعرہ“لُوٹ لِیا !
جمہوریت بچانے کے لئے پارلیمنٹ متحد ہو گئی ہے کہ پارلیمنٹ کے مُشترکہ اجلاس کے پہلے دِن تالِیوں کی گونج میں وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان اور حکومت کے اتحادیوں مولانا فضل اُلرحمن اور جناب محمود خان اچکزئی نے جمہوریت کے ساتھ ساتھ حکومت بچانے کے لئے بڑے ہی پُرخلُوص جذبات کا اظہار کِیا۔ یہ اُن قائدین کا فرض بھی تھا۔ لیکن کے پارلیمانی لیڈر جناب خالد مقبول صدیقی اور حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی صدارت سے برطرف کئے گئے مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی جمہوریت اور آئین کی حمایت کی اور جناب عمران خان اور علّامہ القادری کی ریاست سے بغاوت پر تنقید کی ¾ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ممتاز قانون دان اور سینٹ آف پاکستان میں قائدِ حزبِ اختلاف بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کا انداز بیان مُنفِرد تھا۔ مِرزا غالب نے کہا تھا کہ
”ہیں اور بھی دُنیا میں سُخن ور بہت اچّھے!
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور !“
2013 ءکے عام انتخابات سے قبل جب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت راولپنڈی کے حلقہ نمبر 55 سے شیخ رشید احمد کے مقابلے میں بیرسٹر اعتزاز احسن کو امیدوار بنانے کا سوچ رہی تھی اور اِس سوچ کی خبریں بھی گردِش کررہی تھیں تو میاں نواز شریف نے اعلان کردِیا تھا کہ ”بیرسٹر اعتزاز احسن مسلم لیگ ن کے بھی امیدوار ہوں گے“۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اعتزاز احسن کو ” سانجھا امیدوار “ نہیں بنایا۔ میاں نواز شریف اور بیرسٹر اعتزاز احسن میں ”نظریاتی اختلافات“ کے باوجود دوستی کا رِشتہ رہا ہے۔(شاید اب بھی ہو!)۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ کے مُشترکہ اجلاس کے پہلے دِن ”جمہوریت “ اور اپنی پارٹی سے وفاداری اور وزیرِ اعظم نواز شریف سے ”دوستی“ کا حق ادا کردِیا۔نامور شاعر شہزاد احمد نے کہا تھا کہ
”دوست ہوتے تو مجھے مُنہ پہ بُرا کہہ دیتے!
بزم میں سب نے کِیا میرا گِلہ میرے بعد! “
بیرسٹر اعتزاز احسن نے ایک دوست کی حیثیت سے وزیر اعظم کے مُنہ پر اُن پر تنقید کی جب کہ اُن کی اتحادی اور مسلم لیگ کے محرومِین وزارت ارکانِ قومی اسمبلی اُن کے پِیٹھ پِیچھے۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ” حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں غیر مشروط طور پر جمہوریت اور آئین کے ساتھ ہیں۔ انشاءاللہ حکومت کو کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی وزیرِ اعظم کواستعفاءدینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ (عمران اور طاہراُلقادری کی) لشکر کشی کامیاب ہو گئی تو یہ جمہوریت کے لئے سیاہ دِن ہوگا۔اِس پر تمام اراکین پارلیمنٹ نے ڈیسک بجائے۔ وزیرِ اعظم کو بھی مُسکراتے دِکھایا گیا اور اُس کے بعد خلافِ توقع بیرسٹر اعتزاز احسن نے وزیر ِاعظم کو یقین دہانی کراتے ہُوئے کہا کہ” ہم وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت کے ساتھ مجبوراً کھڑے ہیں۔ وزیرِ اعظم اِس مُشکل مرحلے سے گزر جائیں گے لیکن خطرہ ہے کہ کہیں اُس کے بعد وزیرِاعظم اور اُن کے وزراءمیں رعونت اور تکبّر واپس نہ آ جائے؟“۔صدیوں پہلے فارسی کے نامور شاعر شیخ سعدیؒ نے کہا تھا کہ
”نازک مزاج شاہاں تاب سُخن ندارد!“
یعنی نازک بادشاہ اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے۔ لیکن وزیرِ اعظم نواز شریف کو اپنے مزاج کے خلاف بہت کچھ سُننا پڑا اِس لئے کہ بیرسٹر اعتزاز احسن جمہوریت اور اُن کی حکومت کو بچانے کے لئے تلخ نوائی یا تلخ گوئی کررہے تھے۔کہا جاتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو تقریر (یا پاکستان پیپلز پارٹی کی وکالت )کے لئے نامزد کِیا تھا اور ہدایت کردی تھی کہ عمران خان اور علّامہ القادری کی خُوب خبر لیں لیکن وزیرِ اعظم اور اُن کے وزراءپر بھی تنقید کریں)۔ جناب ِ زرداری کے لئے اِس سے اچھا موقع اور کیا ہو سکتا تھا؟۔حقیقت یہی تو ہے لیکن وزیرِاعظم سے زیادہ اُن کے وزراءنے اپنی اپنی زبان و بیان کے جوہر دکھاتے ہُوئے رعونت ¾ تکبّر اور مخالفین کی تضحیک کرنے میں جو کردار ادا کِیا اس طرح کا رواج تو انتخابی مہم کے دَوران ہی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں پنجاب کے بعض وزراءبھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ مِرزا غالب نے آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اُستاد محمد ابراہیم ذوق کا مذاق اُڑاتے ہُوئے کہا تھا کہ
”بنا ہے شہ کا مُصاحب ¾ پِھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرُو کیا ہے؟“
کینیڈین شہری ”شیخ اُلاسلام“ کے حوالے سے عوام اور مسلم لیگ ن کے وفاق اور پنجاب کے وزراءنے جو کچھ کِیا وہ تو بے حد ضروری تھا ۔ لیکن اُن وزراءنے عمران خان کی بہت ہی زیادہ تضحیک کر کے وزیرِ اعظم کے لئے بہت ہی زیادہ مُشکلات پیدا کردی ہیں۔ رعونت اور تکبّر کے علاوہ شہ خرچی ¾ بہت ہی زیادہ سکیورٹی اور نا مناسب حد تک مراعات نے مسلم لیگ ن اور اُس کی حکومت سے مفلُوک اُلحال عوام کی ہمدردی سے محروم کردِیا ۔سابق وزرائے خزانہ کی طرح جناب اِسحاق ڈار بھی کئی بار کہہ چُکے ہیں کہ پاکستان میں 50 فیصد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں “۔ غُربت اور امارت کی لکیر کھینچنے والے کون ہیں؟ یہ لکیر کب مِٹے گی؟ اور کون مٹائے گا؟۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے عمران خان اور علّامہ القادری کے دھرنے کے بارے میں ایک فِلمی گیت کا یہ مُکھڑامطلع سُنا کر خوب داد وصُول کی کہ
مَیں خیال ہُوں کسی اور کامجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ تیرا عکس ہے ¾پسِ آئینہ ¾ کوئی اور ہے“
اِس پر بھی تالِیاں بجائی گئیں۔ تالِیاں بجانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے کہ جن پر یہ مُکھڑا صادق آتا ہے۔ وزیرِاعظم کی قومی اسمبلی خاص طور پر سینٹ سے غیر حاضری پر تنقید کرتے ہُوئے بیرسٹر اعتزاز احسن کہا کہ
”لائے اُس بُتّ کو اِلتجا کر کے !
کُفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے !“
علّامہ القادری ”قومی حکومت “ بنوانا چاہتے ہیں پارلیمنٹ میں بھی ایک طرح کی ”قومی حکومت “ ہی بن چُکی ہے۔ اب مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مِل کر حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی” جمہوریت اور آئین “ بچائیں گی؟۔جمہوریہ تُرکیہ کے بانی اتاتُرک نے 29 اکتوبر 1923 ءکو ”خلافت“ ختم کردی تھی۔ اُس سے قبل تُرکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں خلافت اور شریعت کے حامی عُلماءنے شور مچایا تھا ”خلافت ختم نہیں کی جا سکتی“ تو اتاتُرک نے کہا تھا کہ ” عثمانی ترکوں نے طاقت کے بل پر خلافت حاصل کی تھی اور ہم عوام کی طاقت سے اسے ختم کررہے ہیں“۔پارلیمنٹ کا مُشترکہ اجلاس گویا ”نثری مشاعرہ “ معلوم ہوتا تھا۔ بار ی باری ہر مقرر کے سامنے” شمع¿ محفل ” رکھی گئی لیکن جب ”شمع¿ محفل “ بیرسٹر اعتزاز احسن کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے نثری مشاعرہ لُوٹ لِیا ۔