نثار وزیراعظم کیخلاف سازش کر رہے ہیں : خورشید شاہ‘ اعتزاز احسن‘ الزامات کا جواب آج پریس کانفرنس میں دونگا : وزیر داخلہ ‘ وزیراعظم کی منانے کی کوششیں پیپلز پارٹی سے بھی معذرت
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ ایجنسیاں) وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے سے گلے شکوے ہوتے ہیں مگر موجودہ حالات میں ایک ہونا ہم سب کیلئے بہتر ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خورشید شاہ کی جانب سے وزیر داخلہ کے بیان پر تحفظات کے بعد خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ جب بھی ملک میں ایسا کوئی موقع آئے ہر چیز کو بالائے طاق رکھ کر آئین کی سربلندی کیلئے ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے کام کرنا ہوگا۔ جب میرے استعفے کی بات ہوئی تو اپوزیشن نے مجھے سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی اور قادری سے بات کر رہے ہیں۔ دھرنوں کی وجہ سے دوست ممالک کے صدور نے دورے ملتوی کر دیئے جس سے معیشت کو نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں چودھری نثار علی خان کے بیان پر اعتزاز احسن اور دیگر ساتھیوں سے معذرت کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ تمام معاملات کو مل جل کر حل کریں گے۔ ہم ججز کی بحالی میں اکٹھے رہے، یہ مرحلہ گزر جائے پھر ہم سارے معاملات بیٹھ کر طے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی تو میں بھی اتنی ہی یکجہتی کا ثبوت دیتا۔ انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن صاحب سے معذرت کرتا ہوں، چاہتا ہوں کہ وہ درگزر فرمائیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ رات خورشید شاہ اور اعتزاز احسن سے بات بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خدانخواستہ پاکستان کی ترقی کے 20 سالہ ایجنڈے پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ اقتدار کی کوئی پروا نہیں، استعفیٰ دینے سے روکنے کیلئے اصل دبائو حزب اختلاف کا ہے اور میرا سر فخر سے بلند ہے کہ پارلیمنٹ نے جمہوریت، آئین اور قانون کی راہ اپنے لئے متعین کر لی۔ وزیراعظم نے کہا کہ گلے شکوے اپنی جگہ لیکن موقع آئے تو ہر چیز بالائے طاق رکھ کر آئین کی بالادستی کیلئے ہمیں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ گلے شکوے ہوتے ہی ہیں لیکن جو معاملہ درپیش ہے، وہ بہت بڑا ہے، جن ساتھیوں نے بیچ میں پڑ کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، ان کا بڑا مشکور ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اقتدار سے زیادہ آئین اور پارلیمنٹ عزیز ہے۔ اس کی بالادستی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کو کمزور نہیں کرنا چاہتے، وزیراعظم کی کمزوری جمہوریت کی کمزوری ہوگی، اعتزاز احسن پر لگائے گئے الزامات کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ لوگ ایوان سے اچھی خبر چاہتے تھے، لیکن میاں صاحب! آپ کے سینئر وزیر نے اچھی خبر نہیں دی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آپ کے وزیر نے ہمیں کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی صفوں میں پورس کے ہاتھی ہیں، حکومت میں بیٹھ کر سازشیں کررہے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں، وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ مخالفین مر گئے تھے، انہیں نئی طاقت بخشی گئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چودھری نثار آئیں اور آکر اس ایوان سے معافی مانگیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا پاس رکھنے کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، یہ سارا ایوان ایک ہو کر وزیراعظم کے ساتھ کھڑا تھا تو اسے تقسیم کرنے کی سازش شروع کر دی گئی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم آپ کے اعتماد کو جس طرح چودھری نثار نے چھرا مارا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں حزب اختلاف نے ہمیشہ حکومت پر آئے برے وقت کا فائدہ اٹھایا ہے، اس بار تمام سیاستدانوں نے مل کر جمہوریت کیخلاف سازش ناکام بنا دی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ میاں صاحب، پاکستان کی اپوزیشن نے آپ کو آئیکون بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن چیمبر میں بیٹھی تھی، وہاں بھی بدتمیزی کرنیکی کوشش کی، ایسی باتیں کرنے والا آپ کی پارٹی کا نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے وزیر داخلہ کے خلاف شیم شیم کے نعرے لگائے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ہمیں جمہوریت کا پاس رکھنا ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم آپ کی سیاسی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے، یہ اعتزاز احسن کا مسئلہ نہیں ہے، اپوزیشن کا مسئلہ ہے، اس ایوان کے ایک ایک ممبر کے دل میں دکھ ہے اور مولانا فضل الرحمٰن بھی بہت پریشان تھے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ٹیپو سلطان جیسا عظیم اور نڈر سپہ سالار جس نے انگریزوں کو ناک رگڑنے پر مجبور کیا لیکن اس عظیم سپہ سالار کو بھی میر جعفر اور میر صادق جیسے آستین کے سانپوں نے ختم کرا دیا، وزیراعظم صاحب آج آپ کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ کون آپ کا محسن اور کون دشمن ہے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن نے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو گھٹیا، بے بنیاد اور لغو قرار دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار نے مجھ پر الزامات لگا کر آسمان پر تھوکا ہے، اگر چاہوں تو ساری اپوزیشن کو لے کر ایوان سے باہر جا سکتا ہوں اور اس ایوان کو ختم کر سکتا ہوں۔ عمران خان کی باتیں لوگوں کے دلوں میں تیر کی طرح اتر رہی ہیں، وزرا کے چہرے پندرہ دنوں سے مرجھائے ہوئے تھے، اپوزیشن کے ساتھ دینے پر ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں، وزیراعظم موجودہ بحران سے نکل کر کابینہ میں ردوبدل کریں، میرے کلائنٹس میں پراپرٹی ٹائیکون سمیت افتخار چوہدری اور وزیراعظم بھی رہے ہیں، کوئی پپو پٹواری، جہانگیر تحصیلدار اور شیخ اسلم نہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم کا ممنون ہوں کہ انہوں نے غیر مبہم انداز میں مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا اور معافی بھی مانگی، راجہ ظفر الحق اور دوسرے وزراء بھی میرے پاس آئے، مجھ پر گھٹیا الزام لگائے گئے، ان کے بارے میں بات کرنا میرا حق ہے۔ میں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ اپنے دائیں بائیں دیکھیں، آگ لگانے والے آپ کے گھر میں تو نہیں بیٹھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی مجھے گھور رہے ہیں، میری سیاست کو پچاس سال ہو گئے ہیں، میرے خاندان کے لوگ تحریک پاکستان کے معمر ترین اور کم عمر قیدی تھے۔ ایل پی جی اور سیاست سے تجارت کرنے جیسے الزامات لگائے جا رہے ہیں، میں ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹا رہا، افتخار چوہدری میری کوشش سے بحال ہوئے اور اس کے بعد میرے پاس پیسوں کے بریف کیس آئے اور بلینک چیک لے کر کلائنٹ آنا شروع ہو گئے، بڑے بڑے وکلاء کو چھوڑ کر لوگ کیس میرے پاس لے کر آئے لیکن میں نے انکار کیا اور کہا کہ افتخار چوہدری کو میں نے بحال کرایا اس لئے اس کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا۔ میرے کئی دوست افتخار چوہدری کے سامنے پیش ہوئے اور کیسوں میں اربوں روپے بنائے۔ وزیراعظم صاحب آپ اپنے اردگرد دیکھیں، وزیراعظم نے جب معذرت کا فون کیا تو اس کے بعد وزارت داخلہ نے سرکاری بیان جاری کیا اور فون کر کے اپنے بیان پر قائم رہنے کا موقف دہرایا۔ وزیراعظم کو جب گرفتار کر کے ہتھکڑی لگا کر باندھ کر پھرایا جا رہا تھا تو کئی لوگوں کے لئے جی ایچ کیو سے ناشتے آ رہے تھے، جناب وزیراعظم جو آپ کو پہلے سے چھوڑ چکے ہیں ان کی صفائی اور ان کی جانب سے کب تک معذرت کرتے رہیں گے۔ کل بھی ایوان میں وزیر داخلہ نے دھمکی آمیز انداز میں مجھے کہا کہ آپ نے تنقید کی ہے اس کا جواب دیں گے اور پیغام دینے کی کوشش کی کہ بچو اب نہ بولنا۔ ہماری حکومت میں خود وزیراعظم نواز شریف میمو کیس میں کالا کوٹ پہن کر افتخار چوہدری کے سامنے پیش ہو گئے، اگر میں اس وقت ایوان سے نکل جائوں تو پوری اپوزیشن اور مولانا فضل الرحمان بھی مرے ساتھ ایوان سے نکل جائیں گے، حکومت کے ساتھ صرف محمود اچکزئی رہے گا، اگر میں چاہوں تو دھرنے کے خلاف حکومت کی مزاحمت کو ختم کر دوں، پارلیمنٹ کو ختم کر دوں لیکن دھرنے کی سیاست اور کسی کی گردن پر گھٹنا رکھ کر استعفی مانگنے کی سیاست غلط ہے، پیپلز پارٹی کا ورکر ہمارے خلاف بغاوت کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کیوں نواز شریف کی حکومت بچا رہے ہیں، وزیراعظم موجودہ امتحان سے نکل کر کابینہ میں ردوبدل کریں آپ کی پارٹی میں ٹیلنٹ موجود ہے، جمہوریت اور پارلیمنٹ پر یقین رکھتا ہوں، سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وزیراعظم کی معذرت اور خورشید شاہ کے مصالحانہ خطاب کے بعد وزیر داخلہ کے افسوسناک بیان کے معاملہ کو مزید طول دینا پارلیمنٹ اور جمہوریت کیلئے مفید نہ ہو گا، اپوزیشن بڑے کاز کے لئے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ تین دن سے اپوزیشن ایوان میں جو اظہار خیال کر رہی ہے ہم اسے قدر کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ تنقید کو بھی خوش دلی سے لیا ہے، اپوزیشن کا یہی کام ہے، اپوزیشن کے اس رول کو سراہتے ہیں، سیاسی بحران میں اپوزیشن نے قوم کی ترجمانی کی ہے اور ایسا کردار ادا کیا ہے کہ جس نے ایوان کو ایک ادارہ اور اکائی بنایا ہے اور اس کا اثر ملک اور بیرون ملک نظر آ رہا ہے۔ اعتزاز کی تقریر کے بعد اذان شروع ہونے پر اجلاس پیر کی شام تک ملتوی کر دیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینٹر چوہدری اعتزاز احسن کو گلے لگا لیا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔کابینہ کے ارکان کے ہمراہ ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نواز شریف خود چل کر اعتزاز احسن کے پاس گئے۔ وزرا اور دیگر ارکان پارلیمنٹ بھی اعتزاز کی تقریر کے دوران نثار اور اعتزاز کو روکتے رہے تاکہ ماحول مزید خراب نہ ہو۔ ادھر پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ پر کڑی تنقید کے بعد وزیر داخلہ ناراض ہو گئے اور حکومت انہیں منانے اور پریس کانفرنس نہ کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ سعد رفیق نے چوہدری نثار کو خطاب سے روکنے کیلئے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ، وزیراعظم نواز شریف بھی چوہدری نثار کا ہاتھ دباتے رہے اور انہیں خطاب سے منع کرتے رہے۔ پانچ مرتبہ سپیکر کی جانب سے مائیک نہ دیئے جانے کے باوجود اپنے ڈائس پر کھڑے ہوکر بات کرنا چاہی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت صورتحال سنگین ہوگئی جب چوہدری نثار نے اعتزاز احسن کے الزامات کے جواب میں بات کرنا چاہی۔ تہمینہ دولتانہ نے اعتزاز احسن کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اور کہا کہ مزید زہریلا خطاب نہ کریں۔ ان کی درخواست کے باوجود اعتزاز احسن نے اپنا جارحانہ خطاب جاری رکھا۔ علاوہ ازیں دریں اثناء وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ میری سیاست عزت کیلئے ہے‘ نہ صرف مجھ پر بلکہ میرے مرحوم بھائی پر بھی گھٹیا الزامات لگائے گئے‘ مجھے آستین کا سانپ تک کہا گیا‘ یہ تو میں یا میرا اﷲ ہی نواز شریف سے میری وفاداری کو جانتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنی بے عزتی کروا لوں، آج پنجاب ہائوس میں اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کا جواب دونگا۔ وہ سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزراء کی طرف سے انہیں منانے کیلئے کی جانے والی ناکام کوشش کے بعد اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایوان میں ریکارڈ کی درستگی کرنا تھی، تاہم وزیراعظم اور دیگر وزراء کے دبائو کی وجہ سے ایوان میں بات نہ کر سکا، چوہدری اعتزاز احسن نے ایوان میں بہت سی باتیں ایسی کی ہیں جو حقائق کے منافی ہیں۔ چودھری نثار نے کہا کہ میرے اوپر جو الزامات لگائے گئے ہیں میں ان کا جواب دینے کے لئے تمام ریکارڈ سامنے رکھوں گا ‘ الزام تراشی پر پہل میں نے نہیں اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ میں میرے اوپر الزام لگا کر کی ہے۔ میں اپنے اوپر لگائے گئے ایک ایک الزام کا جواب دونگا۔ چودھری نثار نے کہا کہ وزیراعظم کی چار مرتبہ معذرت کے باوجود خورشید شاہ اور اعتزاز احسن نے مجھے نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ میں یا میرا اﷲ جانتا ہے کہ میری میاں نواز شریف سے وفاداری کس حد تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن نے میرے مرحوم بھائی جنرل افتخار کو بھی نہیں چھوڑا ان کو بھی نشانہ بنایا گیا جو کہ میرے لئے قطعاً ناقابل برداشت ہے اور میں کسی صورت ان کو نہیں چھوڑونگا اور ہر بات کا جواب دونگا۔ علاوہ ازیں سابق صدر اور پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی جانب سے اعتزاز احسن پر لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ چودھری نثار اعتزاز احسن پر لگائے گئے الزامات پر معافی مانگیں۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ میڈیا سے گفتگو میں الزامات سے گریز کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے لئے پیپلز پارٹی کو اعتزاز احسن کی خدمات پر فخر ہے۔ دل سے نواز شریف کے ساتھ ہیں اگر لڑنا ہو گا تو بتا دوں گا مجھ میں بہت برداشت ہے۔ بی بی کی شہادت کے بعد بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ نواز شریف کو یقین دلاتا ہوں کہ جمہوریت کے لئے ان کے ساتھ ہیں۔ زرداری کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ میں نے میاں صاحب پر نہیں خود پر احسان کیا ہے گزشتہ انتخابات میں ہمیں کہا گیا آپ کی جانوں کو خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مشکل پچ پر کھیلنے کے عادی ہیں، کپتان عادی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں جمہوریت بچانے کے لیے بیٹھا ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ساتھ چلنا ہو گا اور اسے متوجہ کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ دریں اثناء وزیراعظم سے چودھری نثار نے ملاقات کی جو 3 گھنٹے تک جاری رہی۔ وزیراعظم نے انہیں آج پریس کانفرنس نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ چودھری نثار نے صبح 11 بجے پریس کانفرنس کرنا تھی تاہم وزیراعظم سے ملاقات کے باعث اپنی پریس کانفرنس شام 6 بجے تک ملتوی کر دی۔ چودھری نثار نے وزیراعظم کے سمجھانے کے باوجود اپنی پریس کانفرنس منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ اعتراز احسن سے کسی صورت معذرت کرنے سے انکار، مجبور کرنے پر وزارت چھوڑنے کی بھی پیشکش کر دی۔ تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ ہائوس سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے صاحبزادے میاں حمزہ شہباز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور وزیراعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد چوہدری نثار علی خان کو لے کر وزیر اعظم ہائوس پہنچ گئے اور 2 گھنٹے سے زائد ان تمام رہنمائوں کی موجودگی میں وزیر داخلہ کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی۔ دریں اثناء سیاسی جرگے کے ارکان نے آصف علی زرداری، محمود اچکزئی اور فضل الرحمن سے ملاقات کی۔
پارلیمنٹ اجلاس/ اعتزاز/ نثار