ہم نے سیاسی نہیں دستوری امور دیکھنے ہیں: چیف جسٹس‘ ماورائے آئین کیس میں فیصلہ مثال بنے گا: جسٹس جواد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے ممکنہ ماورائے اقدام کو روکنے سے متعلق کیس کی سماعت میں ایک بار پھر سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، اے این پی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی ودیگر سے مارچ اور دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حل سے متعلق تفصیلی جواب طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے انہیں 10 ستمبر تک جواب داخل کرانے کی مہلت دیدی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی ہدایت کرچکی ہے کہ یہ سیاسی اور انتظامی معاملہ ہے جسے حکومت خود حل کرے عدالت سیاسی معاملات میں نہیں پڑے گی صرف ان معاملات کا احاطہ کرے گی جو اس کی آئینی حدود میں آتے ہیںعدالت ہر پہلو سے جائزہ لے رہی ہے کیونکہ کیس کا فیصلہ مستقبل میں بطور مثال پیش کیا جائے گا۔ شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ کا لان اور سیکرٹریٹ کا علاقہ خالی کردیا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے مارچ اور دھرنوں سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ تحریک انصاف کے وکیل یوسف کھوسہ نے عدالت کو بتایاکہ ہم آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔کسی صورت بھی غیرآئینی اقدام کی حمایت نہیں کرتے۔ شیخ رشید نے بتایا کہ وہ عدالت کی ہدایت پراحتجاج کرنے والی دونوں جماعتوں کے سربراہوں سے ملے ہیں جس کے بعد انہوں نے سیکرٹریٹ اور پارلیمنٹ کے لان کو خالی کردیا ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ہم نے اس حوالے سے کوئی حکم جاری کیا نہ ہدایت کی تھی آپ نے خود پیشکش کی تھی۔ شیخ رشید نے کہا کہ دونوں جماعتیں ڈی چوک جارہی ہیں، اگر آٹھ سو کنٹینرز ہٹادئیے جائیں تو معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شاہراہ دستور لوگوں اور ٹریفک کے گزرنے کیلئے ہے، لیکن دھرنے کے باعث سیکرٹریٹ کا راستہ بند اور دفاتر میں کام معطل ہے۔ شیخ رشید نے کہاکہ آئندہ ہفتے گیند عدالت کے کورٹ میںآنے والی ہے تو جسٹس جواد نے کہاکہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں پڑتے، ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔ عدالت میں آپ کا مئوقف سامنے آگیا ہے کہ یہ دھرنے قانون کے مطابق ہیں، اب فیصلہ عدالت کرے گی۔ہمارے سامنے 11درخواستیں ہیں جن کا فیصلہ صرف حالیہ صورتحال کیلئے تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ یہ مستقبل میں بطور عدالتی مثال پیش ہوگا۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہاکہ ہم اسے سیاسی طور پر حل کررہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ20 روز ہوگئے اگرسیاسی حل نکالناہے تو اب تک نکل جانا چاہئے تھا ایک صاحب نے پیش ہوکر عدالت کو بتایا کہ شاہراہ دستور پر دھرنا آئینی اور قانونی ہے ہم اس کے آئینی پہلوئوں کو دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نقل وحرکت اور احتجاج ثانوی معاملہ ہے، اصل ایشو ممکنہ ماورائے آئین اقدام کا ہے جس پر ہم پہلے ہی حکم دے چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے وکیل اعتزاز نے کہا کہ شیخ رشید نے آج مجھے کہا ہے کہ یہ پٹیشن نمٹ گئی تو اگلے ہفتے ایک اور درخواست آجائے گی، مجھے تین نومبر 2007ء جیسی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آج ویسی صورتحال نہیں، ہم پیشگی حکم جاری کرچکے ہیں کہ ماورائے آئین اقدام نہ ہو۔ اعتزاز احسن نے کہاکہ تین نومبر کو بھی ملک قیوم نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ایمرجنسی نہیں لگ رہی۔ جسٹس ثاقب نے کہاکہ مجھے توقع ہے کہ شیخ رشید کا مقصد کسی ماورائے آئین اقدام کی جانب اشارہ نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کو سیاسی سطح پر حل کیا جائے، عدالت اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرے گی۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا ہے کہ موجود سیاسی بحران اور دھرنوں کے باعث ملک کو 547 ارب روپے کا نقصان ہوا، سٹاک ایکسچینج مندی اور بے یقینی کا شکار رہی، وفاق کی رپورٹ،اسلام آباد کے مقامی تاجروں کو دھرنوں کے باعث لگ بھگ 10 ارب روپے کا خسارہ ہوا،اسلام آباد کے مقامی تاجروں کو دھرنوں کے باعث لگ بھگ 10 ارب روپے کا خسارہ ہوا،سیاسی بحران کے بعد ملک کے ذر مبادلہ ذخائر 13.92 سے کم ہوکر 13.52 رہ گئے، دھرنوں میں کشیدگی،جھڑپوں کے باعث 707 افراد زخمی ہوئے۔202 پولیس اہلکار دھرنوں کی ڈیوٹی دیتے ہوئے زخمی ہوئے، 3 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے، اسلام آباد کے 2 لاکھ بچوں کا تعلیمی نقصان ہوا،مظاہروں کے دوران 17 گاڑیوں کو نقصان ہوا جس میں ایک پولیس وین بھی ہے، پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت پر مظاہرین کے حملے سے آلات کا نقصان ہوا،دھرنے کے شرکا اور اہم قومی عمارتوں کی حفاظت کیلئے اضافی سکیورٹی پر 13 کروڑ روپے لگ گئے۔ آئی این پی کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر سب کچھ آئین کے مطابق ہے تو یہ مثال پھر آنے والے وقت کیلئے بھی ہو گی، ہم کس کو کون سے شہر میں روکیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملات سیاسی طور پر حل کریں، ہم نے آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مجھے یقین ہے شیخ صاحب ایسی کسی پیشرفت کی طرف اشارہ نہیں کر رہے وہ مثبت رائے رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری عمارتوں کو جانے والے راستے بند ہیں، احتجاج کے باعث حکومت کام نہیں کر پا رہی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا یہ حق ہے کہ ساری چہل پہل مفلوج کر دی جائے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ عدالت نے سیاسی نہیں آئینی امور دیکھنے اور ان کا فیصلہ کرنا ہے۔ شاہراہ دستور کی بندش سے سرکاری دفاتر غیر فعال ہوئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ معاملے پر عدالت جو فیصلہ دے گی وہ مثال بنے گا۔ ہم نے پارلیمنٹ یا سیکرٹریٹ خالی کرنے کے احکامات نہیں دیئے بلکہ یقین دہانی شیخ رشید نے خود کرائی تھی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ احتجاج کرنے والے معاشرتی انصاف اور انکی ناہمواریوں کو ضرور اجاگر کریں مگر شاہراہ دستور مسدود نہ کریں۔