یوم دفاع یوم فلاح ہے
چھ ستمبر یوم دفاع پاکستان ہے۔ اس کی اہمیت 14اگست کے یوم آزادی اور 23 مارچ کے یوم پاکستان سے کم نہیں ہے۔ یہ بات نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے یوم دفاع پاکستان کے لئے خصوصی تقریب میں جنرل (ر) جاوید نے بھی کہی۔ ہمیشہ اکلوتی تقریب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام ہوتی ہے۔ پہلے اس کی صدارت چیئرمین نظریہ پاکستان مجاہد صحافت مرشد و محبوب مجید نظامی کرتے تھے۔ اب صدارت چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ بہت باوقار اور نوبل انسان صدر رفیق تارڑ نے کی۔
پچھلے سال یوم دفاع کی تقریب میں مجید نظامی نے کہا تھا کہ پاکستان کا دشمن بھارت ہے۔ مجھے ایٹم بم کے ساتھ باندھ کے بھارت پر پھینک دیا جائے۔ ایک بار جنرل ضیاء نے نظامی صاحب کو بھارت کے دورہ کے لئے دعوت دی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر تم ٹینک پر بیٹھ کر بھارت جا رہے ہو تو میں تمہارے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوں۔
چھ ستمبر کی جنگ بھارت کے خلاف ایک مجاہدانہ للکار تھی۔ یہ جنگ ہم نے جیتی نہ تھی تو ہاری بھی نہ تھی۔ بھارت کو لگ پتہ گیا تھا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یہ الفاظ صدر جنرل ایوب کے تھے جو پاکستانیوں کے دلوں میں آج بھی تڑپتے ہیں اور نعرہ تکبیر سے بھارتی ہندوئوں کے دل لرزے ہیں۔
شکر ہے کہ یہ دن افواج پاکستان منا لیتی ہیں۔ شہیدوں کے مزاروں پر حاضری سے یہ دن دوبارہ زندہ ہوتا ہے اور دل اس دن کی یاد سے آباد ہوتے ہیں۔ یوم دفاع سرکاری حکومتی سطح پر منایا جانا چاہیے مگر ہمارے حکام کو بھارت دوستی کے غبار میں کچھ خیال نہیں آتا۔ حکمرانوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ ہم نے ایٹمی دھماکے کس ملک کے خلاف کئے تھے۔ چین ایران سعودی عرب کے خلاف خدانخواستہ نہ تھے۔ بھارت ڈر کے مارے ایٹمی دھماکوں کا دن نہیں مناتا کہ اس کے عزائم جارحانہ ہیں۔ ہم اس دن سے محبت رکھتے ہیں کہ ہمارے ارادے دفاعی ہیں۔ اس دفاع میں ہماری فلاح ہے۔ اپنے وطن کا دفاع ہم نے کیا اور کریں گے کہ کسی کو ہمارے خلاف جارحیت کی ہمت نہ ہو گی۔
ایک چینی لیڈر سے پوچھا گیا کہ چین کی ترقی کا راز کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ دوست کو یاد رکھنے کے علاوہ دشمن کو بھی یاد رکھا جائے۔ جاپان دشمنی نے ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو دوست دشمن کی پہچان نہیں ہے۔ میرے دادا اپنے علم و فضل اور کردار کی وجہ سے شہر کے سردار تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دوست کی قدر کرو اور دشمن سے غافل نہ رہو۔ 65ء کی جنگ ستمبر ہمارے لئے ایک یادگار معرکہ آرائی ہے۔ تب ہمارے جذبوں جراتوں کے ساتھ ساتھ جنگ کے لئے مہارتوں کا بھی اندازہ دشمنوں کو ہوا۔ ہم نے جنگ لڑی جس طرح جنگ لڑنے کا حق ہوتا ہے۔ دشمن تو لاہور پر قبضے کے خیال سے حملہ آور ہوا تھا مگر ہمارے جوانوں اور فوجی افسروں نے دشمن کے چھکے چھڑوا دیے تھے۔
ہم اپنے شہیدوں کی جتنی قدر و منزلت اور محبت کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر طرف ان دنوں فضا میں جنگی ترانے گونجتے تھے۔ ملکۂ ترنم نورجہاں خود ریڈیو پر آتیں اور اس جذبے سے گاتیں کہ سارا ماحول جگمگا اٹھتا۔ مجھے ایک ملاقات میں اس عظیم شخصیت اور لازوال گلوکارہ نے کہا کہ مجھے اتنا مزہ کبھی نہیں آیا جو جنگی ترانے گا کر آیا۔ شہید زندہ ہوتا ہے۔ شہید کی موت کو بھی زندگی بنا دیتے ہیں۔
آج بھی کوئی ایسا وقت قوم پر آتا ہے تو یہی جذبہ دلوں میں ابھرنے لگتا ہے۔ کوئی شہید اپنے گھر پہنچتا ہے تو وہی ترانے گونجتے ہیں جو جنگ ستمبر کے وقت گونجتے تھے۔ ماں اپنے شہید بیٹے کے لئے اسی طرح جذبات کا اظہار کرتی ہے جیسے ہم ابھی جنگ ستمبر لڑ رہے ہوں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے دوران جنگ نہ تھی۔ سازش تھی۔ اور یہ عالمی سازش تھی جس میں بھارت روس اور امریکہ تینوں شامل تھے۔ درمیان میں ایک ہزار میل کا علاقہ جس پر دشمن کا ملک ہے فوج کے لئے کوئی کمک کوئی ملٹری انٹیلی جنس پہنچنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ پھر بھی بھارتی فوج براہ راست ڈھاکہ میں داخل نہ ہوتی تو ہم کسی صورت میں ہار نہیں سکتے تھے۔ اب برسوں سے کسی دشمن کو خیال نہیں آیا کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے۔ اسے معلوم ہے کہ پاکستانی فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ہے۔ ہمارے فوجی لڑنا جانتے ہیں۔ مرنا بھی جانتے ہیں اور جو شخص مرنے کے لئے تیار ہو جائے اسے مارنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ہم نے روس کو اس خطے سے نکالا جبکہ ایک امریکی سپاہی یہاں نہ تھا۔ پوری دنیا بھارت اور امریکہ سب ہماری فوج کی اہلیتوں اور قربانیوں سے واقف ہے۔ آئی ایس آئی کے قائل ہیں۔ اندرونی خلفشار اور بیرونی قوتوں کے مخصوص ایجنڈے کے باوجود ہماری افواج الرٹ ہے اور خفیہ ایجنسیاں بھی متحرک ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں میں آئی ایس آئی تیسرے نمبر پر ہے۔ پوری دنیا میں فوجی افسروں کی شہادتیں جوانوں سے کم نہیں ہوتیں۔ سپہ سالار اور سپاہی میں فرق مٹ گیا ہے۔
تقریب میں شاہد رشید نے ولولہ انگیز کمپیئرنگ کی۔ میاں فاروق الطاف بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر رفیق احمد ، جنرل جاوید کرنل اکرام اللہ جسٹس آفتاب فرخ نے خوب خطاب کیا۔ جسٹس آفتاب فرخ لاہور کی بے قرار اور سرشار صورتحال کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے اپنی یادوں کا جھنڈا بلند کیا تو سبز ہلالی پرچم آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔ جب فوجی جوان اور افسران قومی پرچم کو سلامی دیتے ہیں تو بہت جوش و خروش پیدا ہوتا ہے۔ صدر رفیق تارڑ نے بتایا کہ سیالکوٹ میں فوجی جوانوں کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں لباس تیار کرنا تھے تو ایک درزی نے حامی بھر لی اور دوسرے دن سب لباس تیار تھے۔ شہر بھر کے سب درزیوں نے پوری رات مل جل کر کام کر دیا تھا۔ یہ جذبہ ہماری قوم میں موجود ہے۔ جنگ ستمبر کے دنوں کی یاد کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ اس کے لئے کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے۔ میری جنگ ستمبر کے سب فوجی جوانوں اور افسروں سے گذارش ہے کہ وہ اپنی یادداشتیں شائع کروا کے نئے لوگوں کو دیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ہم کس قوم کے افراد ہیں۔ میری خواہش ہے کہ کرنل اکرام اللہ پہل کریں۔ اور جنرل جاوید بھی کچھ لکھیں۔ وہ تب جنگ میں شریک نہ تھے۔ ہم گورنمنٹ کالج میں اکٹھے تھے مگر وہ اس جنگ کے لئے اتنا کچھ جانتے ہیں کہ پوری کتاب بن سکتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نشان حیدر میجر شبیر شریف شہید کے بھائی ہیں اور نشان حیدر میجر عزیز بھٹی کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ وہ نشان حیدر پانے والے قبیلے کے فرد ہیں انہیں اپنے وطن اپنے ادارے اور اپنی فیملی کے وقار کا احساس ہے۔ وہ حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ وہ سر تا پا ایک بہادر سپاہی ہیں اور شاندار سپہ سالار ہیں۔