فریقین کو رسوائی سے بچانا چاہتے ہیں‘ مذاکرات ناکام ہوئے تو تجاویز عوام کے سامنے پیش کرینگے : سراج الحق
لاہور +کوئٹہ ( خصوصی نامہ نگار +نوائے وقت رپورٹ) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے فلسطین کا ساتھ دینے کے بجائے اسرائیل کا ساتھ دیا‘ غزہ کی صورتحال پر ہمیں زیادہ گلہ مسلمان حکمرانوں سے ہے‘ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو حق اور باطل کی جنگ سے نکل کر خاموش تماشائی بن گئے۔ امیر جماعت اسلامی نے غزہ ریلی کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج مختلف وجوہات کی بنا پر ہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی بحران کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد دھرنوں کے محاصرے میں ہے‘ جب بھی کوئی وزیراعظم بنتا ہے خود کو مغل بادشاہ سمجھنے لگتا ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری روایات مستحکم ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 80 فیصد مسائل پر اتفاق رائے ہو چکا جو امن کا راستہ اختیار کرے گا عوام اس کے ساتھ ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں نے مفادات کو ایک طرف رکھ کر مصالحت کیلئے سیاسی جرگہ بنایا‘ جس کی کوشش ہے کہ تمام مسائل حل کئے جائیں لیکن اس کیلئے حکومت‘ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ جن مسائل پر فریقین میں اتفاق نہ ہوا‘ ان پر جرگہ تجاویز پیش کرے گا۔ انہوں نے اپیل کی کہ سیاسی جماعتیں موجودہ بحران کو حل کرنے میں کردار ادا کریں۔ اگر مذاکرات ناکام ہو گئے تو اپنی تجاویز عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ ہم نے صاف شفاف انتخابات کے مطالبے کی ہمیشہ حمایت کی ہے‘ تینوں فریقین کو ذلت اور رسوائی سے بچانا چاہتے ہیں‘ ہم نے نیک نیتی سے مسائل کے حل کی کوششیں کیں اور جنہوں نے کفن باندھے اور قبریں کھودیں ان کو بھی مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ جماعت اسلامی کی غزہ ریلی میں بڑی تعداد میں مختلف سیاسی‘ قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے کارکنان اور عہدیداروں نے شرکت کی۔ قبل ازیں ایک انٹرویو میں سراج الحق نے امید ظاہر کی ہے کہ جرگے کی کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔ قوم اطمینان رکھے موجودہ بحران کا حل بہت جلد بات چیت کے ذریعے پرامن طور پر نکلے گا۔ سراج الحق نے کہا کہ ہماری آنیاں جانیاں نہیں بلکہ نتیجہ خیز موومنٹ ہے جس کے نتیجہ میں کشیدگی میں کمی آئی فریقین نے ڈنڈے اور کفن رکھ دیئے ہیں۔ عمران خان کا مطالبہ ہے کہ نواز شریف استعفیٰ دیں اور طاہر القادری کا مطالبہ ہے کہ شہباز شریف استعفیٰ دیں یہ دو مطالبات ایسے ہیں جو حکومت کے لئے ہضم کرنا مشکل ہے تاہم باقی معاملات نسبتاً حل ہونے کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ میں اس مسئلے میں اضافے کا باعث نہ بنوں بلکہ اس کے حل کا باعث بنوں۔ میں اب تک مایوس نہیں ہماری کوششیں جاری ہیں اور امید ہے کہ میری یہ کوششیں ثمرآور ثابت ہوں گی۔ یہ سارا مسئلہ حل ہو مسئلہ کسی ایک شخصیت کا نہیں یعنی مسئلہ عمران خان کا نہیں بلکہ وہ لاکھوں لوگ ہیں جنہوں نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے اور جب نواز شریف کا تذکرہ کرتا ہوں تو نواز شریف کو نہیں بلکہ ان لاکھوں افراد کو دیکھتا ہوں جنہوں نے انہیں ووٹ دیا۔