6 ستمبر 1965ء کفر و اسلام کا معرکہ
تحریک آزادی کی تاریخ جتنی طویل ہے قیام پاکستان کے بعد کا عرصہ اتنا ہی قلیل و مختصر ہے۔ ہر قوم کی طرح ہمارے بھی قومی ایام ہیں جنہیں ہم ملی جذبوں اور قومی ولولوں سے نہ صرف مناتے ہیں بلکہ نسل نو کے ذہنوں کو بھی ان اہم ترین قومی دنوں کی اہمیت و فضیلت سے معطر و منور کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہم یوم اقبال یوم قائداعظم اور یوم آزادی کے ساتھ 6 ستمبر کو بھی بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں جس دن ایک نومولود ریاست کے بے سر و سامان لوگوں نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے تاریخ عالم کو ایسے انمول نقوش سے روشناس کرایا جس سے عالم حرب پہلے شناسا نہیں تھی۔ ملت پاکستانیہ کے جری بیٹوں نے فضائوں ، سمندروں اور زمین پر بہادری جانفشانی کے ایسے کارنامے رقم کئے جنہیں سُن کر دنیا ورطۂ حیرت میں رہ گئی۔ انہی جانبازوں غازیوں اور سرفراز و سرخرو شہیدوں کی کہکشاں کی طرح درخشاں داستانوں کی یاد تازہ کرنے اور ارض وطن کی حرمت پر کٹ مرنے کے عہد نو کا عظیم دن ہے۔ تنگ نظر ہندو، تنگ دل انگریز پاکستان دینے کو تو تیار ہو گئے مگر اس حالت میں پہنچا کر دیا کہ یہ چند ماہ کے بعد دم توڑ دے اپنا بوجھ اٹھا نہ سکے۔ بھوک و افلاس کے ہاتھوں جلد ہی گاندھی کے آگے دست اتحاد پھیلا دے مگر ایسا نہ ہو سکا تو طرح طرح کے حربے استعمال کرنے شروع کر دیے۔ 1962ء میں بھارت نے چین سے زور آزمائی کا ارادہ کیا مگر منہ کی کھانی پڑی اس دوران دوستوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ موقع بہتر ہے کشمیر پر قبضہ کیا جا سکتا ہے مگر امریکہ برطانیہ درمیان میں آ گئے کہ ہم بعد میں مسئلہ کشمیر بڑے اچھے انداز میں حل کرا دیں گے۔ چین سے جھگڑا ختم ہوا تو امریکہ برطانیہ نے بھارت کو اسلحے سے لاد دیا جس کے زور پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر تو درکنار آزاد کشمیر اور پاکستان پر چڑھائی کر ڈالی۔ بھارت یہ بھول گیا کہ پاکستانی قوم نے چند سال قبل ایک انقلاب آفریں جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کی ہے۔ ان دنوں ملت پاکستانیہ اپنے حکمرانوں سے جعلی انتخابات میں مادر ملت کو شکست دینے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہی تھی مگر دشمن کی جارحیت کے باعث تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاک افواج کے ساتھ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی۔ وہ منظر مثالی بھی تھے اور دیدنی بھی، وہ نظارے ایمان افروز بھی تھے اور واجب تقلید بھی۔ مملکت خداداد کے تمام بندگان خدا، وکلا، علمائ، طلبہ، اساتذہ، دانشور، ادیب، صحافی، سرکاری ملازمین بھی، تاجر بھی اور مزدور ہر مرد و زن پیرو جواں یک زباںہم فرزندان پاکستان ارض پاک پر سب نثار سب قربان اس جذبے سے سرشار ہر ایک کا رُخ سرحد کی جانب تھا۔ لاہور کی زمین آسمان گواہ ہے کہ وطن کے بیٹے بیٹیاں اپنے فوجیوں کی محبت و عقیدت میں ان کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔ لوگ سڑکوں پر کھڑے فوجیوں کی گاڑی کا استقبال ایسے کرتے جیسے اپنے قومی ہیروز کو چاہتے ہیں۔ دیہاتوں میں دودھ کے بھرے برتن اٹھائے بیٹیاں اپنے عظیم محافظ بھائیوں کے انتظار میں کھڑی دکھائی دیں کہ اس دودھ پر سب سے زیادہ حق دھرتی کے محافظوں کا ہے۔ عوام نے کھانے پینے کی چیزوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ راقم کو یاد ہے کہ سب گھر مل کر کھانا پکاتے جو جنگ کے متاثرین میں تقسیم ہوتا۔ راقم کے والد نے اپنی زرعی زمین 1965ء کی جنگ کے متاثرین کی مدد کیلئے دو سال تک حکومت پاکستان کو عطیہ کر دی جس کے نتیجے میں آج تک قبضہ واپس نہ مل سکا۔ اس دوران سارے شہر میں سول ڈیفنس کے دفاتر قائم تھے جہاں لوگوں کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور فسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی۔ گھر گھر میں مورچے کھودے جا رہے تھے۔ ایک عجب سماں تھا پوری قوم شیر و شکر نظر آتی تھی۔ سترہ دن مسلسل جنگ جاری رہی اس دوران ضروریات اشیاء کی قیمتیں بڑھیں نہ ملاوٹ کا کیس سامنے آیا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس دوران کسی تھانہ میں چوری ، ڈکیتی ، راہزنی، زور زبردستی اور زنا و قتل کا کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ کمال یکجہتی، محبت، ہم آہنگی اور یکسوئی نظر آتی۔ کہیں متاثرین کیلئے اشیاء ضروریات جمع ہو رہی ہوتیں تو کہیں پاک فوج کے جوانوں کیلئے قوم کی بیٹیاں اور بیٹے قطار در قطار خون دینے کیلئے بے قرار نظر آتے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسلحہ کی کمی کے باعث ایک پیسہ ایک ٹینک کا نعرہ لگایا توپوری قوم نے دل کھول کر رقم جمع کرائی۔ ان دینے والوں میں بھیک مانگنے والے فقیر بھی شامل تھے۔ یتیم بچے، بیوہ خاتون بھی اپنی جمع پونجی لے کر اپنے وطن کے متوالوں اور عزت کے رکھوالوں کے نام پر قربان کرنے میں پہل کر رہی تھیں۔ اس سترہ روزہ جنگ میں بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ جانی اور عسکری نقصان اٹھانے کے علاوہ طویل علاقوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ تمام کامیابیاں خدائے واحد پر غیر متزلزل ایمان کے ساتھ دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑنے والے عالی مرتبت عظیم فرزندان توحید کی سرفروشی و جانثاری کی بدولت نصیب ہوئی جن کی زندگی اور شہادت پر پوری قوم کو فخر ہے جو دشمنوں کی یلغار کے مقابلے میں باصورت چٹان جم گئے کیونکہ میرے وطن کے محافظ یہ اللہ کے سپاہی پوری قوم کو سکون کی نیند دینے کیلئے اپنے آپ کو ہر تکلیف ہر آزمائش میں ہمہ تن تیار رکھتے ہیں ۔ ان کی عظمت کو سلام کیونکہ آئیے ہم سب یک زبان ہو کر 65 کے شہیدوں اور غازیوں شہ بازوں شہ سواروں کو جن کے خون نے ہمارے حال کو روشنی بخشی سلام کریں۔مگر 6 ستمبر جب بھی آئے گا پوری قوم کے دلوں میں یادوں کے چراغ روشن ہوں گے۔ ان سپوتوں کے احترام میں سر جھکے گا، آنکھیں نم ہوں گی۔