’’قیامت اور کیا ہوگی‘‘؟
’’اکرم بھائی اور باجی نصرت انتقال کرگئے… ایسے دھماکہ خیز الفاظ کی روح تک سناٹے میں ڈوب گئی ’’والد محترم‘‘ کی وفات کے بعد ابھی کچھ جینا شروع کیا تھا کہ لوگ پھر ماتم میں بدل گئے۔ ’’ساہیوال‘‘ کی معروف سماجی شخصیت ’’شیخ محمد اکرم‘‘ سابقہ نائب صدر چیمبر آف کامرس‘ سینکڑوں فلاحی اداروں کے سرپرست اور نہایت دیندار‘ نیک‘ ولی وقت کچھ وقت قبل اہلیہ محترمہ کے ہمراہ ’’دوبئی ‘‘ گئے اور اگلے دن دونوں کی موت کی خبر ملی ’’بھائی جان‘‘ کا تو نیند میں انتقال ہوا‘ جب باجی نے دیکھا تو ان کا بھی دکھ‘ صدمہ سے دل بند ہو گیا … ’’میری بڑی بہن‘ ہماری ماں کی طرح اس دن لگتا تھا کہ سارے شہر کی ماں جدا ہو گئی ہو‘ ہر شخص کے لبوں پر دونوں میاں بیوی کی دلیری والی سخاوت‘ جرات صدقہ کی قابل اشک‘ قابل تقلید باتیں‘ واقعات ہے اور آنکھوں سے سیلاب جاری ہوتا۔ پورا شہر امڈ پڑا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار اور دل دکھی تھا۔ دونوں مثالی میاں بیوی اور سیلاب کی طرح ٹوٹ کر برسنے والے پانی کی طرح اپنی ’’اولاد‘‘ اور غریبوں کے غم خوار تھے۔ بہت بڑا سہارا تھے۔ ہر سال 100 سے زائد غریب بچے بچیوں کی شادی کرواتے‘ غرض کہ کون سا ایسا نیک کام‘ مدد نہ تھی جو انہوںنے نہیں کی۔ پچھلے کچھ مہینے سے خیرات‘ سخاوت کچھ زیادہ بڑھ گئی اور معمولات بھی بدل گئے تھے‘‘ بہت کم باتیں کرتے‘ زیادہ وقت تلاوت قرآن پاک اور درس کی محفلوں میں گزرتا تھا۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تو شروع سے ہی تھے مگر اب کچھ زیادہ ہی متوجہ ہو چکے تھے۔ اس وقت الفاظ کم محسوس ہو رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنے دکھ‘ غم کو کیسے الفاظ کم محسوس ہو رہے ہیں‘ سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنے دکھ‘ غم کو کیسے الفاظ کی لڑی میں پرو دوں کہ اندر کا لاوا پھٹ جائے… بہت بڑی آزمائش آ گئی ہے یہ تو ذاتی المیہ ہے۔ قدرتی آزمائش ہے دوسری طرف ایک اور قدرتی قیامت پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ’’پورا پنجاب آزاد کشمیر بدترین سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو کر بے بسی سے سیلاب کے بے رحم بہائو پر سسک رہے ہیں۔ سینکڑوں چھتوں پر چڑھے امواد کے لئے پکار رہے ہیں۔ سیلابی پانی سے اموات کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ بارشوں کا سلسلہ اگرچہ تھم چکا ہے مگر تباہی … میں نہیں آ رہی۔ حکومت کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ بقول ’’وزیر ماحولیات‘‘ ضرورت پیش آنے پر فوج سے بھی مدد لی جائے گی۔ اب معلوم نہیں ’’ناگہانی صورتحال‘‘ کونسی ہو گی… جب فوج نے ہی سارے کام کرنے ہیں تو پھر اتنے سارے سیاسی پرندے پالنے اور بکھیڑے کھڑے کرنے کا کیا فائدہ؟؟؟ پورا ملک تباہ کاری کی ہر سال چلنے والی کہانی کی لپیٹ میں ہے اور سیکرٹریٹ میں ’’کنٹرول روم‘‘ قائم کرنے کی نوید کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا… نہایت افسوس کا مقام ہے کہ پوری انتظامی مشینری اور حکومت اس قیامت سے نمٹنے کی بجائے اس ’’قیامت‘‘ کو مزید فیول دے رہی ہے جو انسانوں کی بپا کردہ ہے۔ ’’میٹرو ٹرین‘‘ کے علاوہ پورا لاہور سمندر کا نظارہ دے رہا ہے۔ سیاسی سرگرمی کو اربوں روپے کے اشتہار‘ کروڑوں کے فنڈز اور بے تحاشا قیمتی جانوں کا صدقہ بھی روکنے میں ناکام رہا… اک قیامت کا منظر تھا‘ اسلام آباد میدان جنگ بنا ہوا تھا شیلنگ ‘ پتھرائو‘ بھگڈر ‘ ربڑ کی گولیاں پاکستانی قوم کی قسمت پر لکھے گئے نئے نوچے تھے۔ ایک تماشا تھا‘ رسوا کن مناظر اپنے ہی لوگ‘ اپنی ہی عمارتوں پر قبضہ کرنے کے لئے کسی دشمن فوج سے بھی زیادہ چوکس‘ مستعد‘ بے قرار‘ دانش ‘ حکمت اس طرح غائب تھی جس طرح آج ہمارے دلوں سے سکون‘ اطمینان عنقا ہے اور ایک قیامت وہ ہوتی ہے جو گھروں کاسکون اجاڑ دے‘ خوشیاں چھین لے‘ دوسری قیامت یہ ہے جو ملکی معیشت کو کھا گئی مگر ’’قیامت‘‘ تقریریں کرنے والے شازشیں مرتب کرنے میں مصروف ہے۔ سیاسی‘ صوبائی‘ فرقہ واریت کی بھڑکتی ہوئی آگ کے جلو میں دشمن ارض پاک کی سالمیت پر حملہ ہو چکا ہے مگر کسی کو فکر نہیں ہر کوئی تیل ڈالنے پر مصر ہے اور طوالت پکڑتا ہوا بحران اب جمہوریت کی جڑوں میں بیٹھنے والا ہے‘ سیاسی تماشوں‘ انا‘ ضد‘ نامعلوم ‘ بے منزل کشمکش نے دشوار اور پارلیمان کو گرفتار کر رکھا ہے قیامت اور کیا ہو گی ؟؟ قیامت کیا ہے یہ اس وقت معلوم ہوتا ہے جب کوئی بہت ہی پیارا رخصت ہو جائے‘ ملک میں جاری قدرتی آفت اور انسانوں کے سجائے سرکس کے نتیجہ میں کتنی قیمتی جانیں قربان ہو گئیں ان کا دکھ درد صرف لواحقین ہی بتا سکتے ہیں‘ خوشنما باتوں ‘ وعدوں سے …ووٹ لینے والے نہیں۔