میرے دادا بشیر نظامی مرحوم کو ضلعی انتظامیہ کا خراج تحسین
میرے دادا بشیر نظامی مرحوم و مغفور نے تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت، مادر ملت تحریک بحالی جمہوریت اور مہاجرین کی آباد کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بشیر نظامی مرحوم بانی نوائے وقت حمید نظامی مرحوم کے چھوٹے اور معمار نوائے وقت ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم اور خلیل نظامی مرحوم کے بڑے بھائی تھے۔ تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے گولڈ میڈل عطا کیا گیا تھا جو ان کے صاحبزادے اور میرے والد احمد کمال نظامی نے وصول کیا تھا۔ بشیر نظامی مرحوم 4 ستمبر 1981ء کو اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے تھے ان کی اس مرتبہ برسی پر بھی ان کے آبائی شہر سانگلہ ہل اور فیصل آباد میں الگ الگ تقریبات منعقد کی گئیں جس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا جبکہ اس مرتبہ ضلعی انتظامیہ فیصل آباد کی طرف سے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر شہر کے معروف ریلوے سٹیشن چوک کا نام ’’بشیر نظامی چوک‘‘ سے منسوب کر دیا گیا۔ ڈی سی او نورالامین مینگل، رکن صوبائی اسمبلی خالد سعید اور تحریک پاکستان کے کارکن شیخ بشیر احمد نے بشیر نظامی چوک کا افتتاح کیا۔ بشیر نظامی مرحوم ایک سادہ اور دبنگ انسان تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے عہد شبانہ کے دوران انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ وہ سانگلہ ہل اور پنجاب بھر میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے پیغامات اور افکار کو پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ ان کے رفقاء اور پرانے ساتھیوں کے مطابق وہ سانگلہ ہل کے گرد و نواح میں واقع علاقوں میں جہاں سکھوں کا غلبہ تھا اور وہ بہت بااثر تھے، بشیر نظامی ان علاقوں میں تحریک پاکستان کی غرض سے اپنا کردار ادا کرنے جایا کرتے تھے جس دوران ان پر اکثر حملے بھی ہوئے اور وہ بسا اوقات واپسی پر سکھوں کی طرف سے کئے جانے والے حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کو ساتھ لایا کرتے تھے لیکن کبھی بھی ان کے جذبہ استدلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ تحریک پاکستان کے دوران جب بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح دیگر اکابرین تحریک ختم نبوت اور مسلم لیگ کے ساتھ دورہ پنجاب پر تھے تو بشیر نظامی اپنی کاٹ دار اور پُرجوش آواز سے قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے فلک شگاف نعرے بلند کر کے بانی پاکستان کو اپنی ٹرین کی بوگی سے باہر آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس دوران قائداعظم نے انہیں تحریک پاکستان کا بڑا مجاہد قرار دیا اور اپنے فیصل آباد (اس وقت لائلپور) جلسہ عام کے لئے ان کی سربراہی میں سانگلہ ہل کے حوالے سے استقبالیہ کمیٹی کا سربراہ بھی نامزد کیا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ نوائے وقت کی خبروں کو پڑھ کر اپنے علاقہ کے لوگوں تک مسلم لیگ کے اکابرین اور حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ تحریک پاکستان کا یہ وہ دور تھا جب ہندو اخباروں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا اور کسی میں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی مسلمان یا مسلم لیگ کے ترجمان اخبار کو پڑھ کر رائے عامہ ہموار کر سکے۔ تحریک پاکستان کے بعد انہوں نے مہاجرین کی آبادکاری میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خود اپنا گھر نہ بنایا مگر لٹے پٹے اور بے آسرا آنے والے مہاجرین کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے مارشل لاء نے ان کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا اور وہ محترمہ مادر ملت فاطمہ جناح کی تحریک بحالی جمہوریت میں پنجاب کی سطح تک بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ اس دوران انہوں نے اپنی گرتی ہوئی صحت کا بھی خیال نہ رکھا مگر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے کمربستہ رہے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران بھی ان کا کردار انتہائی شاندار رہا۔ تحریک ختم نبوت کے دوران انہیں ان کے دلیرانہ کردار پر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑی۔ انہیں خطرناک رہنما قرار دے کر کیمبل پور اور اٹک جیل میں قید کیا گیا مگر وہ سرورکائنات حضرت محمدؐ کی ناموس کے لئے اپنا ایمانی کردار ادا کرتے رہے۔ انہیں تحریک ختم نبوت میں شامل رہنے سے بار بار روکا گیا اور ریاستی جبر کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے مگر ان کے پایہ لغزش میں کوئی کمی واقعہ نہ ہو سکی۔ تحریک ختم نبوت کے دوران مولانا تاج محمود مرحوم اور آغا شورش کاشمیری کے ساتھ ان کے قریبی روابط تھے۔ آغا شورش کاشمیری اور مولانا تاج محمود ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مسلم لیگ کے محمد حسین چٹھہ کے ساتھ بھی ان کے گہرے سیاسی مراسم تھے مگر وہ ساری زندگی سفید پوشی اور رزق حلال کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ وہ سانگلہ ہل میں نوائے وقت کے نامہ نگار اور نیوز ایجنٹ بھی رہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد سیاسی اور سماجی خدمات کا سفر جاری رکھا یہی وجہ ہے کہ آج بھی انہیں تحریک پاکستان کے حیات اکابرین زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ وہ جس وقت بانی نوائے وقت حمید نظامی مرحوم اپنی حصول تعلیم کے لئے لاہور چلے گئے اور انہوں نے بعدازاں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر نوائے وقت کا اجراء کیا، اس وقت بشیر نظامی مرحوم گھریلو کفالت کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔ بشیر نظامی مرحوم جیسی شخصیات کے بارے میں تحریک پاکستان کے اکابرین اور مذہبی حلقوں کا ایک طویل عرصے سے اصرار تھا کہ ایسے عظیم لوگوں کی یادگاریں قائم کر کے ان کے کردار کو نسل نو تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری نئی نسل نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے سے ہمہ وقت ہم آہنگ رہ سکے۔ فیصل آباد کے موجودہ ڈی سی او نورالامین مینگل نے بشیر نظامی چوک قائم کر کے ان جیسی شخصیات میں سے ایک یادگار قائم کر دی ہے اس کے علاوہ بھی وہ شہر کے مختلف اہم شاہراہوں اور چوکوں کے نام ملک و ملت کے لئے عظیم تر قربانیاں دینے والی شخصیات کے نام قائم کر رہے ہیں۔ تحریک پاکستان کے اکابرین کے نام بھی یادگاریں قائم کرنے کا ان کا سلسلہ قابل صد تحسین ہے۔ بشیر نظامی مرحوم نے تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت، تحریک بحالی جمہوریت اور مہاجرین کی آبادکاری کے لئے جو کردار ادا کیا وہ آج ہم میں موجود نہیں مگر وہ آج بھی اپنے کردار اور عمل کی وجہ سے زندہ و جاوید ہیں۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے سانحہ نے انہیں اندر سے بہت حد تک توڑ دیا تھا، ختم کر دیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ایک دن ضرور آئے گا جب مشرقی پاکستان میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔ آئیے ہم سب پاکستان کو اس قدر مضبوط اور عظیم تر پاکستان یعنی حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے عظیم خوابوں والا پاکستان بنائیں جو ترقی کے زینے طے کرتا ہوا مشرقی پاکستان میں پھر سے سبز ہلالی پرچم کے لہرنے کا سنہری اور حقیقی خواب کو عملی جامہ پہنا سکے۔ ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کی بھی آخری سانسوں تک یہی خواہش تھی۔