’’فیلڈمارشل‘‘ چودھری نثار علی خان بمقابلہ چودھری اعتزاز احسن
35 سال قبل کی بات ہے چکری کے راجپوت سے میرا پہلی بار تعارف ہوا جس نے وقت کے ساتھ دوستی کی شکل اختیار کر لی ’’سیاست دان اور صحافی‘‘ کا رشتہ باہمی اعتماد میں تبدیل ہو گیا تین نسلوں پیشہ سپہ گری سے تعلق رکھنے والے راجپوت کو ’’میدان کارزار‘‘ میں بہادری کے جوہر دکھانے کا موقع تو نہ ملا لیکن میدان سیاست میں مسلسل 8 بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اعزازحاصل کر لیا شاید یہی وجہ ہے عسکری پس منظر رکھنے والے راجپوت کو ان کے سخت مزاج ہونے کی وجہ سے طنزاً ’’فیلڈ مارشل‘‘ کا خطاب دے دیا۔ چودھری نثار علی خان کی پوری سیاسی زندگی طلاطم خیز ہے لیکن ان کی35 سالہ سیاسی زندگی میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے انہوں نے جس جماعت میں اپنے سیاسی کیئریر کا آغازکیا اسی سے وابستہ رہے سرد گرم سیاسی موسم ان کی سیاسی وابستگی پر کبھی اثر انداز نہیں ہو سکا انہوں نے ایک بار میاں نواز شریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا پھر اپنی پوری سیاسی زندگی میں اسے مضبوطی سے تھامے رکھا جب جنرل(ر) پرویز مشرف نے ان کی نواز شریف سے وفاداری کا سوداکرنے کیلئے ان کے پاس’’سیاسی شکار‘‘ کرنے پر مامور ایک اعلی فوجی افسر کو بھیجا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’جس شخص کو ہم نے فوج کا سربراہ بنایا اس نے ہماری ہی حکومت پر شب خون مار دیا اس کے ساتھ کیسے کھڑا ہو سکتا ہوں‘‘ نواز شریف کے ایام نظر بندی کے دوران جی ایچ کیو سے ناشتے آنے کا طعنہ ان کی وفاداری پر شدید ترین حملہ تھا وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے چودھری نثار علی خان ان پر اس حد تک مہربان تھے کہ جب پورے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پاس کوئی حلقہ انتخاب نہیں رہا تو انہوں نے ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار نہ کھڑا کرنے پیشکش کر دی تھی جو سابق صدر آصف علی زرداری کی مخالفت کی وجہ سے عملی شکل اختیارنہ کر سکی لیکن دونوں کے درمیان اس روز’’سرد جنگ‘‘ کا آغاز ہوا جب اعتزاز احسن جعلی ووٹوں کے اندراج کے لئے نادرا کی معاونت کے خلاف دائر چودھری نثار علی خان کی درخواست میں مخالف فریق کے وکیل بن گئے اس سرد جنگ میں اس وقت شدت پیدا ہو گئی جب سینیٹ میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی جانب سے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں ضمنی سوال پر ان کی چودھری اعتزاز احسن سے جھڑپ ہوگئی پھر سینیٹ میں اس قدر تلخی پیدا ہوئی کہ چودھری نثار علی خان نے سینٹ کی راہ ہی چھوڑ دی انہوں بلیغ الرحمن کو سینٹ میں وزارت داخلہ کی نمائندگی سونپ دی سینٹ میں اپوزیشن چودھری نثار علی خان کے ’’غیر اعلانیہ‘‘ بائیکاٹ پر احتجاج کرتی رہی لیکن چودھری نثار نے سینٹ جانا ہی چھوڑ دیا چودھری نثار علی خان سے چودھری اعتزاز احسن کی’’ لڑائی‘‘ میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لئے شامل ہو گئے چودھری نثار علی خان اور خورشید شاہ کے درمیان ’’سپیکنگ ٹرمز‘‘ نہیں رہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب بھی خورشید شاہ میاں نواز شریف کومختلف حوالوں سے تنقید کا نشانہ بناتے انہیں چودھری نثار علی خان کی طرف سے اسی لب و لہجہ میںجواب ملتا ان کے اندر کا اپوزیشن لیڈر ’’مرا‘‘ نہیں دوسرا پیپلز پارٹی کو چودھری نثار علی خان کے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے لگائے گئے کچوکے ابھی تک یاد ہیں اس لئے پیپلز پارٹی کی قیادت ان کا ادھار چکانے کے موقع کی تلاش میں تھی سو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چودھری اعتزاز احسن کو موقع مل ہی گیا انہوں نے پوری اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں حکومت کے ساتھ کھڑاکرنے کا نواز شریف پر احسان چڑھا دیا وہاں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی کمزوری سے سیاسی فائدہ اٹھایا ان کے ارد گرد بیٹھے وزراء کو آڑے ہاتھوں لے کر اپنا ادھار چکا دیا ہے اگرچہ انہوں نے پہلے روز اپنی تقریر میں چودھری نثار علی خان کا نام نہیں لیا لیکن ان کی پوری تقریر کا روئے سخن چودھری نثار علی خان ہی تھے شاید ان کے لئے مسلم لیگ (ن) میں ان کے دشمن نمبر1وہی ہیں چودھری نثار علی خان، اعتزاز احسن کی تنقید کو برداشت کر گئے لیکن بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئی اگلے روز جب چودھری اعتزاز احسن نے چودھری نثار علی خان کو ’’نااہل وزیر داخلہ‘‘ کا طعنہ دیا تو چودھری نثار کے دل میں لگی آگ بھڑک اٹھی انہوں نے اس کی پروا کئے بغیر کے اس کے کیا سیاسی نتائج نکلیں گے اسی روز انہوں ادھار اتار دیا چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ اعتزاز احسن کہاں سے بول رہے تھے، جب اپوزیشن کا سیاسی جرگہ وزیراعظم سے ملاقات کر رہا تھا تو ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز سے انہیں چودھری نثار علی خان کے بیان کا علم ہوا اس کے بعد پوری حکومتی مشنری ان کا بیان روکنے کے لئے متحرک ہو گئی دوسری بار چودھری نثار علی خان بھی اپنا بیان چھپوانے پر بضد رہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتزاز احسن سے معافی مانگنا پڑی لیکن ’’چونترہ کے راجپوت سے گجرات کے جاٹ‘‘ کی ’’لڑائی نے اس قدر شدت اختیار کر لی کے اگلے روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی اس کی نذر ہو گئی پارلیمنٹ کے اجلاس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرنے کا پروگرام بنا کر آئے اور پھر انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں ’’اوپننگ بیٹسمین‘‘ پر ذاتی حملے کئے اور ان کی پارٹی قیادت سے وفاداری کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ چکری کے راجپوت کو اپنی 35سالہ سیاسی زندگی میں پہلی بار اپنی پارٹی قیادت کی ’’مجبوریوں‘‘ کی وجہ سے ہزیمت اٹھانا پڑی پارٹی قیادت نے انہیں پارلیمنٹ میں جواب دینے سے روک دیا تو انہوں نے پریس کانفرنس میں جواب دینے کا اعلان کر دیا چودھری نثار علی خان نے سیاسی زندگی میں کبھی’’پسپائی‘‘ اختیار نہیں کی لیکن اپنی پارٹی کی خاطر بہت کچھ سننا پڑااعتزاز احسن اور سید خورشید شاہ کو حکومت کی کمزور پوزیشن دیکھ کر چوہدری نثار علی خان پر ’’چڑھائی ‘‘ کا موقع مل گیا یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس لڑائی میں پہل اعتزاز احسن نے کی۔ کمزور حکومت کو اپوزیشن کی باتیں سننا ہی پڑتی ہیں اعتزاز احسن کی’’کچن کیبنٹ‘‘ پر گولہ باری کا اصل ہدف مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں کرتا دھرتا چوہدری نثار علی خان ہی تھے میں نے پہلی بار دھرنے والوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو اتنا بے بس دیکھا کہ اسے اعتزاز احسن سے 4 بار معافی مانگنا پڑی ان کی لڑائی لڑنے والے30 سالہ پرانے دوست چودھری نثار علی خان کا دفاع نہیں کر سکے بلکہ کسی اور کو بھی دفاع نہیں کرنے دیا اعتزاز احسن کو وزیراعظم کے معافی مانگنے کے بعد بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دینے کا حق استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا خورشید شاہ چیخ چیخ کر پہلے ہی بہت کچھ کہہ چکے تھے سیاسی اخلاق کا بھی تقاضہ تھا کہ اعتزاز احسن جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کر لیتے تو ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو تا لیکن دونوں کی دوستی سیاست کی نذر ہوگئی چوہدری نثار علی خان کے بارے میں خورشید شاہ اور اعتزاز احسن نے جو زبان استعمال کی وہ اس سے بہتر جواب دے سکتے تھے لیکن ان کی راہ میں پارٹی قیادت کی مجبوریاں حائل ہو گئیں وہ پارٹی ڈسپلن اور وزارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر اپنے سیاسی مخالفین کو بھر پور جواب دینا چاہتے تھے لیکن پارٹی قیادت نے ان کے ہاتھ پائوں باندھ دئیے ان کے بارے میں پیپلز پارٹی کے دونوں رہنمائوں نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے اس میں ایوان صدر کے سابق’’مکین‘‘ کی آشیر باد حاصل ہے جس نے خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کے ذریعے اپنا ادھار چکایا سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا کہ وزیراعظم نے خورشید شاہ اور چودھری اعتزاز احسن سمیت ساری اپوزیشن کو معذرت کا پیغام بھیجا ہے، اس کے بعد معاملے کو طول دینے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، وزیراعظم کے علم میں جب یہ بات آئی ہے تو انہوں نے آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پوری اپوزیشن کو معذرت کا پیغام بھیجا ہے، مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اس حوالے سے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کیلیکن چوہدری اعتزاز احسن اور سید خورشید شاہ نے اس آگ کو ٹھنڈا نہیں کیا چوہدری نثار علی خان اس بات بضد تھے کہ انہوں نے پوری زندگی عزت اور عوام کی خدمت کے لئے سیاست کی ہے ملکی صورت حال کی سنگینی کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی بے عزتی کرنے والوں کو اس کا جواب بھی نہ دوں تاہم انہوں نے کہا کہ ’’میاں نواز شریف اور پارٹی سے وفاداری کا کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں میں میرا اﷲ ہی میاں نواز شریف سے میری وفاداری کو جانتا ہے‘‘ بہرحال پچھلے دو روز پورا ملک سیاسی ہیجان میں مبتلا رہا کہ چودھری نثار علی خان کا آئندہ سیاسی لائحہ عمل کیا ہو گا۔ بالآخر انہوں نے پریس کانفرنس میں ذاتی وضاحت کے نکتہ پر اپنے آپ کو محدود رکھ کرمیاں نواز شریف کا مان رکھ لیا ان کی پریس کانفرنس سے ان کی پارٹی کے لوگوں کو تقویت ملی ہے لیکن ان کے سیاسی مخالفین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب دیکھنا یہ ہے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان رومانس میں مسلم لیگ (ن) کب تک پیپلز پارٹی کی جھڑکیں برداشت کرے گی اس سوال کا جواب میاں نواز شریف کو یقینا دینا پڑے گا۔