کیا اعتزاز، زرداری کے ہاتھوں استعمال ہو گئے!
اسے ستم ظریفی کی انتہا کہا جا سکتا ہے کہ چودھری اعتزاز احسن نے 2013ءکے الیکشن میں دھاندلی پر جس انداز سے دہائی دی اس سے ثابت کیا کہ وہ شاید اس ملک کے واحد سیاست دان ہیں وہ دھاندلی کے سخت خلاف بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس روزِ روزشن کی طرح عیاں حقیقت کا کیا کیا جائے کہ موصوف نے پہلا الیکشن دھاندلی سےہی جیتا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 1975ءمیں پیپلزپارٹی کے ممبر پنجاب اسمبلی انورسماں کو اس کے مخالفین سے قتل کرایا اس طرح خالی ہونے والی نشست کے ضمنی انتخاب میں اعزاز احسن کو پیپلزپارٹی کا ٹکٹ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس وقت کے ڈپٹی کمشنر گجرات کو وزیراعظم ہا¶س سے یہ حکم ملا کہ خبردار! اعتزاز احسن کے مقابلے میں کوئی الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی داخل نہ کرائے اور اگر کوئی ایسی جرا¿ت کرے تو اسے اس کی جرا¿ت کا مزہ چکھا دیا جائے چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے اس حکم کی تعمیل کی اور اعتزاز احسن بلامقابلہ منتخب ہو گئے اس دھاندلی پر احتجاج کرنے گجرات کالج کے پُرجوش نوجوان طلباءڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچ گئے جس نے سرکاری ملازمت کی مجبوریوں کی کہانی سنا کر ان کا جوش و خروش ٹھنڈا کر دیا اور یہ نوجوان واپس آ گئے متذکرہ ڈپٹی کمشنر کے حوالے سے معلوم نہیں کہاں ہیں البتہ اس احتجاج میں حصہ لینے والے اس دور کے طالب علم اس کی تصدیق کرنے کے لئے بفضل تعالیٰ بقیدِ حیات ہیں۔ تاہم اعتزاز احسن نے جو کچھ کیا یہ سب آصف علی زرداری کی سیاست کا کرشمہ تھا خورشید شاہ کو لیپا پوتی کے لئے محفوظ رکھنے کے لئے پنجاب کے بڑبولے کا انتخاب کیا گیا۔ حکمت عملی یہ تھی کہ چودھری نثار کو اشتعال دلا کر شدید ردِعمل پر مجبور کر دیا جائے اور اسے بہانہ بنا کر حکومت کی حمایت واپس لینے کا تاثر دے کر وزیراعظم نوازشریف کو دبا¶ میں لایا جائے۔ چودھری نثار انتہائی تجربہ کار سیاستدان ہونے کے باوجود اس جال میں پھنس گئے اور سخت ردِعمل کا اظہار کر بیٹھے اور پھر اعتزاز احسن کے جواب الجواب نے پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی راہیں جدا ہونے کا تاثر پیدا کر دیا اور وزیراعظم کی جانب سے غیر مشروط معافی نے پیپلزپارٹی کو برتری کے سنگھاسن پر بیٹھا دیا۔ آصف علی زرداری نے آنکھیں دکھائی وزیراعظم کی معافی کافی نہیں، چودھری نثار معافی مانگیں۔ اس مطالبے نے وزیراعظم کو دو راہے پر لا کھڑا کیا ان کے لئے راجپوتی آن رکھنے والے چودھری نثار سے معافی منگوانا ممکن نہیں تھا ایسی کوشش ان کی راہیں جدا کر سکتی تھیں وہ دو چار ارکان اسمبلی کو ساتھ لے کر علیحدہ ہوتے ایسی صورت میں (ن) لیگ کی حکومت اپنی عددی اکثریت سے محروم ہو کر پیپلزپارٹی کی حمایت کے رحم و کرم پر جا پڑتی اور پیپلزپارٹی کو خوش رکھنا جس کی مجبوری بن جاتی لیکن چودھری نثار نے تمام اندازوں اور تخمینوں کے برعکس اندر کے راجپوت پر قابو پا کر درگزر کی ایسی سیاسی چال چلی کہ آصف علی زرداری کی حکمتِ عملی اپنا منہ دیکھی رہ گئی۔ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ میں جمشید دستی نامی ایک دلچسپ کردار ہے موصوف بی اے کی جعلی ڈگری کے الزام میں نااہل ہوئے اپنی ہی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخاب میں کامیاب ہو گئے پھر اسمبلی میں پہنچ گئے انہوں نے عمران خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا لیکن ان کی اماں جان (والدہ محترمہ کے لئے یہ الفاظ انہوں نے خود استعمال کئے) اس ”انقلابی“ فیصلے میں آڑے آ گئیں اور وہ یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گئے کئی دن گزرنے کے بعد اماں جان نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی اور بیٹے کو یہ ”عظیم قربانی“ دینے کی اجازت دے دی لیکن اس کا قابل غور پہلو یہ ہے کہ اماں جان ماشاءاللہ خاصی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتی ہیں۔ انہوں نے بیٹے کو یہ خاص نکتہ بھی سمجھا دیا کہ صاحبزادے اپنا استعفیٰ دینے کا شوق ضرور پورا کرو مگر یہ خیال رہے کہ استعفیٰ عمران خان کو دینا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہئے، ایسا نہ ہو کہ مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح وہ اُن کا استعفیٰ بھی فوراً منظور کر لیں اور اپنی ہی خالی کردہ نشست پر دوبارہ الیکشن میں جیت لازمی نہیں شکست کے بھی امکانات ہیں۔
چنانچہ اماں جان کی سیاسی دانش کی روشنی میں جناب جمشید دستی نے اپنا استعفیٰ عمران خان کو پیش کر کے سرخروئی بھی حاصل کر لی اور رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی والا معاملہ بھی ہو گیا جبکہ شیخ رشید خود ہی سیانے نکلے اور انہوں نے اپنا استعفیٰ عمران خان کو بھی پیش نہیں کیا پہلے انہوں نے اپنے استعفیٰ کو عمران خان کے استعفے سے مشروط کیا تھا لیکن پھر اس خیال سے عمران خان جوش میں آکر اپنے ساتھ اُن کا استعفیٰ بھی سپیکر کو پیش نہ کر دیں اپنے استعفے کو وزیراعظم نوازشریف کے استعفے سے مشروط کر کے عمران خان کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے کہ اگر اُن سے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دلوانا ہے پہلے وزیراعظم سے استعفی لے کر دکھائیں۔
اب عمران خان جو خود اپنی پارٹی کے ارکان سے استعفے نہیں لے سکے وزیراعظم سے کیا استعفیٰ لیں گے لگتا یہی ہے کہ وہ مذاکراتی کمیٹی کی ”گائے“ کی دم پکڑ کر ”استعفے لئے بغیر نہیں جا¶ں گا“ کا ورد کرتے ہوئے گھر لوٹ جائیں گے۔ ویسے شیخ رشید کی بے چینی قابل دید ہے وہ اب ہر لمحے اس فکر میں مبتلا ہیں کہ عمران خان وزیراعظم سے استعفیٰ کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ ان کے 6 میں سے ساڑھے پانچ مطالبات مانے جانے کے بعد نصف مطالبے سے دستبرداری یقین کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ یہ ان کے اندر کا اضطراب ہی ہے جو اس بیان کی صورت ظاہر ہوا ہے کہ عمران خان مر جائے گا مگر وزیراعلیٰ سے استعفیٰ لئے بغیر نہیں جائے گا۔ ایسی ہی فکر مندی میں چودھری پرویز الٰہی مبتلا نظر آتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ”نوازشریف کے استعفی تک دھرنے والے نہیں جائیں گے۔“ یہ دھرنے والوں کے حقیقی جذبات، عزائم کی ترجمانی ہے مگر یہ حقیقت تاحال منظر عام پر نہیں آئی کہ دھرنے والوں نے انہیں اپنا ترجمان کب مقرر کیا ہے۔