بھارتی سیلابی حملہ
سیلاب اور سیاست گڈ مڈ ہو کر رہ گئے ہیں ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان لاہور میں بارش کے پانی نے نشیبی آبادیوں کے بے بس شہریوں کو برباد کیا۔ بھارتی سازش سے دریاﺅں میں آنیوالے پانی نے غریب دیہاتیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ سب تماشا دیکھتے رہے۔ سوئے انکے جو عملی طور پر منہ زور لہروں کا نشانہ بننے ولوں کی مدد کو پہنچے۔ مدد کرنے والوں میں اس بار بھی سرفہرست پاک فوج کے دلیر دستے تھے۔ ہمیشہ کی طرح وطن اور اہل وطن کیلئے پرجوش دستے۔ سرحدوں پر ضرب عضب اپریشن اور اندرون ملک ہر مصیبت کی گھڑی میں مصروف دلیر اور عظیم دستے۔ ادھر بھارت کی طرف سے بغیر اطلاع کے لاکھوں کیوسک پانی پاکستان کی طرف دھکیلنے کی خبریں آئیں ادھر اسلام آباد میںدھرنا حلقوں سے اسے دھرنوںکیخلاف بھارتی سازش اور حکمران جماعت کی عملی مدد کی آوازیں ابھریں لوگ ہکا بکا۔ سچ یا جھوٹ کا معاملہ الگ رکھئے اس بھارتی حملے نے اہل پاکستان میں بے بس کسانوں‘ دیہاتیوں کو بہت برباد کیا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کی شہرت والے نئے بھارتی وزیراعظم مودی کی حکومت نے اچانک پانی چھوڑنے پر معذرت تو کی ہے لیکن اس معذرت سے اربوں روپے کے اس نقصان کا ازالہ کیسے ممکن ہے جو چند گھنٹوں میں ہو گیا۔ اور جس کا نشانہ عام پاکستانی باشندے تھے۔ سیلاب کی برباد کرتی لہروں میں گھرے سیالکوٹ‘ گوجرانوالہ اور دوسرے اضلاع کا فضائی جائزہ وزیراعظم نوازشریف نے لیا۔ نیچے اتر کر متاثرہ افراد کی دلجوئی بھی کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی پہلے لاہور کے لکشمی چوک میں اور پھر لاہور سے باہر متاثرہ آبادیوں کے اندر پانی میں کھڑے ہو کر اظہار خیال بھی کیا لیکن ان کی ٹیم ان کی وجہ سے اقتدار سے لطف اندوز ہونے والی ٹیم کہاں ہے؟ اسلام آباد میں جب دھرنوں میں یہ آواز بلند کیا جاتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی طاقت وہ نہیں جس کو اسمبلیوں میں دکھایا گیا ہے تو کیا ضروری نہیں کہ مسلم لیگ ن سیلابی مصیبت کی اس گھڑی میں ہر جگہ دکھی لوگوں کی مدد کرتی اور اپنی طاقت دکھاتی نظر آئے۔ مسلم لیگی قیادت کے حوالے سے جب یہ خبریں شائع ہوتی ہیں کہ وزیراعظم مودی کے تحفے بھجوائے جا رہے ہیں۔ آم بھجوائے جا رہے ہیں اور جواب میں پاکستانی پنجاب میں سیلابی بربادی آ رہی ہے تو حکمران جماعت کی قیادت کے بارے میں عوام کا ذہن بوجھل ہو جاتا ہے۔ اس بوجھل کو کم کرنے کیلئے سرکاری میڈیا منیجرز کا کردار بھی کہیں نظر نہیں آتا تو اسلام آباد میں دھرنا سیاست کا رنگ اور نکھرنے لگتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست اور سیلاب کے گڈ مڈ ہونے کی کیفیت سے باہر نکل کر سوچا جائے۔ بھارت جو پانی کو کبھی روکنے اور کبھی چھوڑنے کی بنیاد پر پاکستان کی زچ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اس کو اسی اتحاد کے ساتھ خبردار کیا جائے جس اتحاد کا مظاہرہ آئین کیلئے پارلیمنٹ کے اندر کیا جا رہا ہے۔ ایک طاقتور اور بااختیار میڈیا کے ہوتے ہوئے اب یہ ناممکن ہے کہ فطری بہاﺅ کے برعکس سفر جاری کیا جا سکے۔ بھارتی سازش کے جواب میں جس طرح پاک فوج سینہ سپر ہے اس طرح تمام سیاسی جماعتوں کے ”خدمت ونگ“ باہر نکلیں بابا فریدؒ کی آواز میں آواز ملا کر اور دکھی انسانیت کی خدمت اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آگے آئیں اور کہیں....
ہن تھی فریدا شاد دل
جھوکاں تھسین آباد دل
الیہہ نہد نہ وہسیں اک منے