آسانیاں بانٹنے کی ”تلقین“ کرنیوالا
بابا بلھے شاہؒ ہوں یا فرید سلطان باہوؒ ہوں یا سلطان الفقراؒ، میاں محمد بخشؒ یا حضرت میاں میرؒ، احمد رضا بریلویؒ ہوں یا احمد بخواڑیؒ، مہر علی شاہ گولڑویؒ ہوں یا مجددالف ثانیؒ، ابراہیم بن ادھمؒ ہوں یا امیر خسروؒ، قطب الدین مودود چشتیؒ ہوں یا قطب الدین بختیار کاکیؒ، معین الدین ہوں یا نظام الدین اولیاؒ، حضرت سید علی ہجویریؒ ہوں یا سید عبدالقادر جیلانیؒ غرضیکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک سبھی شہر علم و علوم حضرت محمدﷺ کے اس فرمان ذی شان پر عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرو، اشفاق احمد نے بھی علم و عمل کے سمندر بے کراں میں غوطہ زن ہونے کے بعد اور ملکوں ملکوں کی خاک نشینی، اور براعظموں کی سخن شناس کے بعد بالآخر خاتم الانبین کی فرمائی ہوئی۔ اور دنیا و آخرت سنوارنے اور اپنا مقدر سدھارنے کی کلید آسانیاں بانٹنے کی نوید کو ایسے اپنے پلے باندھا کہ وقت وداع تک یہی تلقین نہ صرف ان کے ذہن نشین رہی بلکہ وہ زیست عمل سے ہی وہ آسانیاں بانٹے کی تلقین عوام الناس اور حکمران خاص کو بھی کرتے رہے جن میں جنرل ضیاءالحق سے لے کر میاں محمد نواز شریف شامل ہیں۔ مگر بانو آپا کے کہنے پر انہوں نے وزیر بننے کی پیشکش قبول نہیں کی تھی۔ ان کے سادہ مگر دل میں گھر کرنیوالے افکار و نظریات کو اتنی پذیرائی ملی کہ وہ نصف صدی تک ہم وطنوں میں کبھی ڈراموں اور کبھی دوسرے ”زاویوں“ کی معرفت لوگوں میں اتنے مقبول ہوئے کہ دوسرے دانشور ان کے سامنے طفل مکتب دکھائی دیتے تھے۔ عوام کے قلوب و اذہان کو فتح کرنے کےلئے انہوں نے عوامی اور سادہ اور عوام فہم زبان کا سہارہ لیا۔ ان کی کسر نفسی ان کی کامیابی کا کلیہ تھی۔ وہ کھیت و کھلیانوں میں، دہقانوں کیساتھ زمین پر ہم نشین ہونے میں باک محسوس نہ کرتے میں بے شمار موقعوں پر ان کے ہم راہ تھا۔ بلکہ بعض اوقات میں ان کو ایسے بزرگوں اور بابوں کے پاس لے گیا جنہوں نے کبھی کتب و مدرسے سے اپنا تعلق نہیں رکھا تھا۔ مگر اشفاق صاحب ان کے سامنے ایسے ادب و احترام سے بیٹھتے تھے کہ جیسے با ادب شاگرد اپنے اتالیق و استاد کے سامنے بیٹھتا ہے۔ اور سوال و جواب اور کبھی خاشی کی اس نشست میں وہ اسرار و رموز اور بزرگوں کی صبحت کی برکات و فیوض سمیٹ کر ہی اٹھتے تھے۔ کیونکہ اقبال کا یہ مقلد اس راز سے آگاہ تھا کہ....
فیض نظر کےلئے ضبط سخن چاہئیے
حرف پریشاں نہ کہہ اہل نظر کے حضور!
مجھے اس بات کا تفاخر و احساس ہے کہ میران ان سے تعلق خاص تھا اور میں ان کا احسان مند ہوں کہ مجھ جیسے کم مایہ و کم علم نے جب بھی انہیں درخواست کی وہ ہمیشہ تشریف لائے۔ وطن واپس لوٹ آنے کے بعد اس بامراد شخص نے ہمیشہ کھدر، لٹھے، سوتی پہناوے کو زیب تن کیا۔ بائیس گریڈ کا یہ افسر اس قدر ملنسار اور باعمل تھا کہ میں اپنی زندگی میں ان جیسا ”باعمل“ اور سچا انساں کبھی نہیں دیکھا۔ میں ان کے ریڈیو کے پروگرام تلقین شاہ میں بھی ایک کردار ادا کرتا رہا ہوں۔ نذیر حسینی جیسا بڑا اداکار رجو ڈرامے میں ان کا نوکر ہدایت اللہ تھا۔ وہ عظیم انسان بھی اشفاق صاحب کو اپنا استاد ماننے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ فن کی آبیاری کرنیوالے اشفاق صاحب کے میری طرح ہر آرٹسٹ اور پی ٹی وی کے جنرل منیجر صاحبان پر احسانات ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں ٹیلی ویژن کا معمار اور اپنے شہکار دنیا میں منوانے والے یعنی قول و فعل کا پکا انساں تھا۔ اور سادگی و سچائی ہی اس کی زندگی کی کمائی تھی۔ اور یہی ان کے نظریات و خیالات تھے۔ اشفاق صاحب کا ممتاز مفتی اور شہاب صاحب سے لے کر اس وقت کے خصوصاً لاہور میں جتنے بزرگ تھے ان سے ذاتی تعلق کے ساتھ ساتھ روحانی تعلق تھا۔ یہ روحانی تعلق ہی کا اعجاز ہے کہ جس نے بانو آپا کو بھی ممتاز محترم بنا دیا ہے میں سمجھتا ہوں اس میں فیضان نظر کے علاوہ مکتب کی کرامت بھی شامل ہے جس کی گواہی بزرگ بھی دیتے ہیں کہ بانو آپا کا مقام و مرتبہ کسی سے کم نہیں بابا یحییٰ خان تو ایک کو ماں اور دوسرے کو مرشد کا رتبہ دیتے ہیں۔ بابا یحییٰ خان تو پیارنگ کالا، اور کاجل کوٹھا لکھنے کے بعد برملا اعتراف کرتے ہیں کہ میں نے اشفاق صاحب کی کوئی کتاب نہیں پڑھی مگر وہ کون سا راز ہے جس کو بابا یحییٰ خان فاش نہیں کرتے کہ آخر اشفاق صاحب ان کے مرشد کیونکر بنے؟ اور یہ بات تو نور الحسن بھی زبان پر نہیں لاتے کہ وہ بھی اپنا اشفاق صاحب کو اپنا پیرو مرشد کیوں مانتے ہیں۔ جواب دینے کی بجائے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور آنسو و اشک ان کے رخسار پر ٹپکنے لگتے ہیں اشفاق صاحب اگر بزرگ نہ ہوتے تو ان کے جنازے پر بھی ملک بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی آنکھوں سے بھی اشک رواں نہ ہوتے۔ بقول اقبالؒ....
زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے
انہیں کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری