پارلیمنٹ پھپھے کٹنیوں کا اڈا ہے‘ انصاف ملتا تو لوگ دھرنے میں نہ بیٹھتے: طاہر القادری
اسلام آباد (آئی این پی) ڈاکٹر طاہر القادری نے پارلیمنٹ کو پھپھے کٹنیوں کا اڈہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے میرے کنٹینر کو اوباما کے محل سے تشبیہ دیدی، میرے کنٹینر کا ماحول تو درویشی ہے ، پاکستان سے ماہانہ 75 ارب روپے بیرون ملک سمگل ہوتے ہیں، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک غیرمحفوظ ہے، اگر انصاف ملتا تو لوگ یہاں آ کر دھرنے میں نہ بیٹھتے، اقتدار میں آ کر ٹیکس چوروں سے پیسہ وصول کرکے انکا احتساب کریں گے۔ دھرنے کے شرکاء سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی ایک خاتون شازیہ مری نے میرے کنٹینر کی بات کی۔ میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ خود آ کر دیکھ لیں۔ افسوس ہے انہیں زمینی حقائق معلوم نہیں اور پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر جھوٹ بولتے ہیں اور اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کنٹینر کو پرتعیش کہا گیا، جب آکر دیکھیں گے تو انکا سر شرم سے جھک جائیگا۔ انقلاب مارچ کیلئے آئے لوگوں پر طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں لیکن حکمران یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ تو آئین کے تحت اپنے حقوق لینے آئے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آئین ووٹ اور پارلیمنٹ کے ذریعے انقلاب آسکتا ہے لیکن اگر آئین اور ووٹ کے ذریعے انقلاب آتا تو کب کا آچکا ہوتا۔ معاشرے میں معاشی آزادی نہ ہو تو جمہوریت ممکن نہیں، تقریباً 10 ارب ڈالر بیرونی قرضہ ہے۔ سابق گورنر سٹیٹ بینک نے بتایا کہ روزانہ پاکستان کے تین ایئرپورٹ سے اڑھائی ارب روپے بیرون ملک سمگل ہورہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمران دنیا کے سب سے بڑے سمگلر ہیں اور وہ اپنا سر مایہ باہر بھیج رہے ہیں اور بیرونی ممالک سے قرضہ لے کر سر مایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، پاکستان سوداگروں کے ہاتھ میں ہے۔ 1990ء میں نوازشریف حکومت نے قانون پاس کیا کہ ملک سے اربوں روپے، غیرملکی کرسی میں تبدیل کر کے جہاں دل چاہے لیکر جاسکتے ہیں اور اب آکر پھر ایک قانون بنایا ہے کہ بیرون ملک سے جس شکل میں دل چاہے پیسہ لایا جاسکتا ہے، اسکو کسی نے چیلنج نہیں کیا کیونکہ اس گنگا میں ہر کوئی نہا رہا ہے اورجنہیں صرف ایک قطرہ پانی نہیں ملتا ان کیلئے اب ہم یہاں آئے ہیں۔ ہم تو ایک معاشی پالیسی دینا چاہتے ہیں جس میں یہ قانون بنایا جائے گا کہ نہ کوئی چور دروازے سے پیسہ بیرون ملک لے کر جائے گا۔ حکمرانوں نے پارلیمنٹ کو بھانجے، بھانجیوں، سمدھیوں، سالوں، ہم زلفوں سے بھر رکھا ہے۔ ایک ہی خاندان کے دس دس لوگ بیٹھے ہیں۔