• news

نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز

میں نے ایک کالم میں لیڈر اور حکمران کا فرق بیان کیا تھا۔ مجھے برادرم کرنل ضرار نے فون کیا اور لیڈر (قائد) کی صفات ایک ایک کر کے گنوا دیں۔ میں حیران رہ گیا۔ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت کو ان صفات کی روشنی میں دیکھنا چاہئے۔ ہماری تابناک تاریخ مسلمان سپہ سالاروں کی تاریخ ہے۔ سپہ سالار اور قائد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر مرد و عورت میں قائد کی صفات کسی نہ کسی حد تک موجود ہوتی ہیں۔ باپ گھر کا سربراہ اور قائد ہے تو ماں بھی اس سربراہی میں شریک ہے اور وہ بھی قائد ہے۔ لوگ اپنی مائوں سے پیار کرتے ہیں تو لیڈر شپ کو تسلیم کرتے اور قبول کرنے کے لئے پیار اور اعتبار ضروری ہے۔ بچہ ماں سے پیار کرتا ہے تو اسی پر اعتبار کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں باپ کو بھی اہمیت نہیں دیتا۔ ماں کبھی اسے ڈانٹ دے یا مارے پیٹے، وہ روتا ہے اور روتے ہوئے بھی سیدھا ماں کی طرف جاتا ہے۔ اس کے ساتھ لپٹتا ہے۔ ماں قائد ہے کہ اس کے پاس مامتا ہے۔ مامتا محبت سے کچھ زیادہ بڑا جذبہ ہے۔ مامتا کو محبت کہا جا سکتا ہے۔ محبت کو مامتا نہیں کہا جا سکتا۔ یہ صرف ماں کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہی جذبہ ماں کو عظیم اور منفرد بناتا ہے۔ جب بھی کوئی مشکل آ پڑتی ہے۔ کوئی تکلیف ہوتی ہے یا درد اٹھتا ہے تو آدمی ہائے اللہ اور ہائے ماں کہتا ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ماں خدا کی طرح عظیم ہے۔ یہی مخلوق ہے جو خدائی کے تسلسل کو جاری رکھنے کا سبب بنتی ہے۔
بہرحال میں یہ کالم لیڈر کی مدح میں لکھ رہا ہوں۔ ماں کی ہستی میرا موضوع نہیں ہے۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماں قائد ہے۔ خدمت اور قربانی کو اپنی شخصیت  میں ڈھالنے کے لئے ماں جیسا بننا ضروری ہے۔ لیڈر کے لئے بھی خدمت اور قربانی پہلی صفات میں سے ہے۔ کرنل ضرار بہت دل والے انسان ہیں۔ دل والا ہی دلیر ہوتا ہے۔ دلیری کے ساتھ دلبری بھی ضروری ہے۔ جو دلیر نہ ہو وہ دلبر نہیں ہو سکتا اور محبوب جسے ہم دلبر کہتے ہیں دلیر بھی ہوتا ہے۔ کرنل ضرار نے ایک قائد (لیڈر) کے لئے جو صفات بتائیں وہ یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ان میں ایک بھی صفت ہمارے نام نہاد لیڈروں میں موجود نہیں ہے۔ ہمارے کسی مرد اور عورت کو کسی نہ کسی جماعت کا رہنما کہا جاتا ہے۔ وہ جماعت کا رہنما شاید ہو مگر قوم کا رہنما نہیں ہو سکتا۔ وہ جو ہمسفر بھی نہیں ہے دوستوں سے ہی واقف نہیں ہے۔ صرف اپنی مسافرت کو عیش و عشرت بنانے کے لئے فکرمند ہو وہ مسافر ہی نہیں ہے تو رہنما کیسے ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے بدقسمت لوگوں کا حال یہ ہے:
جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی  راہبر کو میں
قائداعظم کے بعد  تھکے ہارے، لٹے پٹے، دکھوں کے مارے  عوام قائد سے محروم  ہیں۔ سابق وزیراعظم پاکستان میر ظفراللہ جمالی نے کہا ہے کہ ہمارے پاس سیاستدان ہیں مگر لیڈر نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدان صرف حکمران بننا چاہتے ہیں۔ جمالی صاحب بھی وزیراعظم ہوئے تھے تو کیوں لیڈر نہ بنے۔ وہ صدر مشرف کو باس کہتے تھے۔ ایک دن پہلے استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا اور دوسرے دن ڈر کے مارے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے علامہ اقبال کی نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘ نہیں پڑھی:
عزت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا
حکمران اور لیڈر میں فرق ہے۔ حکمران لوگوں پر حکومت کرتا ہے۔ لیڈر دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ حکمران سے لوگ ڈرتے ہیں۔ لیڈر سے پیار کرتے ہیں۔ ایک ڈر پیار کا بھی ہوتا ہے۔ ڈر نیگٹو ہے مگر پیار کا ڈر پازیٹو ہے۔ یہ وہی ڈر ہے جو بچے کی محبت ماں سے بڑھا دیتا ہے۔ یہ ڈر اندر ہی اندر پیار کو بڑھاتا ہے اور وہ محبت نہیں ہوتی جو روز بڑھتی نہیں ہے۔ پیار آب رواں کی طرح ہوتا ہے۔
دل دریا  سمندروں ڈونگھے
کون دلاں دیاں جانے ہو
دریا اور سمندر کی تہذیب میں بہت فرق ہے۔ دریا کنارے بستی بنانے والے اور سمندروں کے ساحل کے ساتھ رہنے والے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ لیڈر حکمران بن جاتا ہے۔ مگر حکمران لیڈر نہیں بن سکتا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے مگر کوئی انہیں سابق گورنر جنرل نہیں کہتا۔ سب انہیں قائداعظم کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں چند ماہ یا چند سال وزیر رہنے والے عمر بھر سابق وزیر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے ایک زبردست کالم لیڈر کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں ’’لیڈر وہ ہوتا ہے جو مشکل وقت میں صحیح فیصلے کرتا ہے۔‘‘ یہاں حکمران فیصلے نہیں کرتے۔ صرف اپنے اقدامات سے فاصلے بڑھا دیتے ہیں۔ اندرا پائونڈے نے کہا تھا کہ ’’وہ مقناطیس کہاں گیا جو دلوں کو دلوں کی طرف کھینچتا تھا۔ وہ مقناطیس محبوب اور محبوب لیڈر کے پاس ہوتا ہے۔ اب نہ محبوب رہا نہ محبوب لیڈر رہا۔ تو دل والے لوگ کہاں جائیں۔
دلے دارند و محبوبے نہ دارند
ترجمہ: دل تو رکھتے ہیں مگر محبوب نہیں رکھے۔ عشق کرنے والوں کا المیہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا۔ ہمیں بے عشق حکمرانوں نے مارا جو کاروبار کرنا جانتے ہیں مگر کاروبار عشق سے واقف نہیں ہیں۔ اب ذرا دل تھام کے بیٹھئے اور لیڈر کی صفات سنئے جو کرنل ضرار نے بتائی ہیں۔ یہ ایک انسان کو اللہ کے قریب تر کرتی ہیں اور اللہ نے فرمایا کہ میں نے انسان کو اپنی صفات پر پیدا کیا ہے۔ ایک لیڈر میں پیغمبرانہ اوصاف بھی ہونا چاہئیں۔ پیغمبر سے بڑا لیڈر کون ہے اور میرے آقاؐ و مولا رحمت اللعالمین، محسن انسانیت پیغمبر اعظم رسول کریم حضرت محمدؐ دنیا کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ سیرت رسولؐ پڑھو اور عشق رسولؐ میں ڈوب جائو۔
لیڈر، مددگار، استاد، پراعتماد بصیرت والا، سچا محرک، اصول پسند، انضباطی مدثر، صاحب رائے، متنبہ کرنے والا، درستگی کرنے والا، مخیر، بار بار مثبت کوشش کرنے والا، غلطیوں سے درگزر کرنے والا، اپنی غلطی کو تسلیم کرنے والا، حالات کو بہترین قومی مفادات میں استعمال کرنے والا، کم سے کم وسائل سے بڑے بڑے نتائج لینے والا، بہترین یادداشت رکھنے والا، عورت مرد شہری دیہاتی دبلا موٹا لمبا چھوٹا جیسا بھی ہو اچھا نظر آنے والا اور مسحور کن شخصیت والا ہو۔ صاف دل بلند خیال، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا مشکل وقت میں پیچھے نہ ہٹنے والا دائیں بائیں سے محفوظ رکھنے والا انتہائی خطرناک حالات میں ساتھ کھڑا ہونے والا اپنی زندگی ساتھیوں کی زندگی کے لئے قربان کر دینے والا۔ میں کی بجائے ہم کہنے والا۔ وغیرہ وغیرہ یعنی ابھی کئی باتیں کرنل ضرار کے دل میں ہیں تو پھر میری طرف سے یہ کہ دوسروں کے دلوں میں جھانک لینے والا۔ جب کرنل صاحب خاموش ہو گئے تو میں نے حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یہ شعر انہیں سنایا:
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
ایک شعر اور بھی مجھے یاد آیا جو ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر صادق آتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں کا بہت برا حال ہے۔
کوئی کارواں سے چھوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دلنوازی
جسے ساتھی چھوڑ کر چلے جائیں جس سے دوست بدگمان اور بیزار ہوں وہ تو انسان ہی نہیں ہوتا۔ اسے لیڈر کون کہے۔ ہمارے ہاں سیاسی لوٹوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں کئی لفظ کثیرالاستعمال ہو کر غلط العام ہوئے۔ ان میں دانشور عظیم عالم دوست کے علاوہ بہت سے ہیں۔ ان میں سے ایک لیڈر یا قائد یا رہنما بھی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن