دیکھیں گے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم میں کتنی شفافیت ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ کے آٹے ودیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں غیر قانونی اضافوں سے متعلق جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کے خط پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے قرار دیا کہ عدالت جمع کرائی گئی رپورٹس کا جائزہ لے گی، دیکھا جائے گا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم میں کس قدر شفافیت ہے دیکھا جائے گا معاملے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں نے کیاکیا اقدامات کئے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ رپوٹس جمع ہوگئیں اور کام ختم ہو گیا، عدالت نے تمام فوڈ سیکرٹریوں کو حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے کہا کہ اب انہیں آنے کی ضرورت نہیں تمام صوبائی لاء افسر کیس میں پیش ہوتے رہیں گے، کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی توسندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شفیع محمد چانڈیو نے عدالت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ کے 23 اضلاع میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 80فیصد مستحق افرادکو رقوم تقسیم کی جا چکی ہیں، جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ آپکی رپورٹ کے مطابق کراچی کے 2کروڑ کی آبادی والے شہر میں سے صرف 74 ہزار لوگوں کو امدای فنڈز دیئے گئے اسی طرح ایک اور ضلع میں جس کی آبادی دس لاکھ تھی میں سے صرف ایک لاکھ لوگوں کو فائدہ دیا گیا، غریب لوگوں کے بارے میں آپ کو کس طرح معلومات حاصل ہوئیں، شفیع محمد نے جواب دیا کہ بے نظیر پروگرام کے ڈیٹا کی بنیاد پر دیا گیا عدالت متعلقہ افسروں کو بلاکر طریقہ کار اور شفافیت بارے میں پوچھ سکتی ہے فنڈز ان کو دیئے گئے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عبدالرزاق مرزا نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمٹیاں اشیائے خوردونوش کے نرخ پر نظر رکھتی ہیں، انہیں کنٹرول ریٹ سے اوپر نہیں جانے دیتیں، وزیراعلیٰ شہباز شریف نے صوبائی سطح پر نگران کمیٹی بھی بنائی ہے جس کی دو میٹنگ ہوچکی ہیں، پروڈکشن کو بڑھانے کے لئے ایک اور کمیٹی قائم ہے جو رسد و طلب کے معاملات طے کرتی ہے 1100پرائس کنٹرول مجسٹریٹ مقرر کئے گئے ہیں، لوگوں کی شکایات درج کرانے کے لیے ایک یو اے ایس نمبر بھی ہے جس پر ڈی سی او کو شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ اتنی آسان بات نہیں کہ آپ نے کہ رپورٹ جمع ہو گئیں اور کام ختم ہوگیا ہم شفافیت کا جائزہ لیں گے۔
اشیاء خوردنی کیس