قصور…واپڈا میں اصلاحات کے اعلانات عملدرآمد کا خواب کب پورا ہو گا؟
حاجی محمد شریف مہر
قصور (نمائندہ نوائے وقت) واپڈا معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے بجلی کے بغیر زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ بجلی کے بغیر ملکی معیشت کا پہیہ بھی جام ہو جاتا ہے اور بے روزگاری جیسی پریشانی سے ہر طبقہ متاثر ہوتا ہے غرض کہ موجودہ دور میں بجلی لازم و ملزوم ہے دنیاکے دیگر ممالک میں حکومتیں عوام کو سستی سے سستی بجلی فراہم کرنے کی ہمہ تن کوشش کرتی ہیں مگر ہمارے ملک میں مختلف حیلے بہانوں سے آئے روز بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ آمدن ہے جس سے حکومت وقت تیزی سے کیش کر رہی ہے اورعوام مجبوراً یہ ظلم برداشت کر رہے ہیں واپڈا میں اصلاحات کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں مگر عملدرآمد کا فقدان نظر آتا ہے۔ اعلیٰ افسران ‘ ذمہ داران کا تعلق بڑی بڑی صنعتوں‘ فیکٹریوں ‘ کارخانوں سے مفاد کی بنیادوں پر ہے اور عام آدمی سے مفادات کے حصول میں مصروف چھوٹا عملہ ہے آئے روز فرضی چیکنگ ٹیمیں بنا کر عام آدمی کو بجلی چور لکھ کر ہزاروں کا ڈٹیکشن بل ڈال دیا جاتا ہے زائد ریڈنگ کے ذریعے ریونیو اکٹھا کیا جاتا ہے زائد ریڈنگ نہ ڈالنے کے لئے ماہانہ مقرر ہو جاتا ہے ہر سب ڈویژن دوسرے پر سبقت لے جانے کے عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا دیتا ہے۔ غریب آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور محنت مزدوری کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے بل کی درستگی کے لئے کئی روز کے چکروں سے تنگ آ کراپنی جمع پونجی واپڈا کو دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اگر صارف ایسا نہ کرے تو بجلی کی نعمت سے محروم کر دیا جاتا ہے اگر کسی نے کنکشن حاصل کرنا ہو تو نظام ایسا پیچیدہ ہے کہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں واپڈا اہلکار ٹھیکہ کر لیتے ہیں اور مُک مکا کے بعد فائل تیار ہو جاتی ہے اور فائل کو کونے پر اہلکار (ٹھیکیدار) کا نام لکھا ہوتا ہے اور پھر تیزی سے فائل پر تمام قانونی غیر قانونی شقوں کی پرواہ کئے بغیر ڈیمانڈ نوٹس جاری ہو جاتا ہے نیا کنکشن سنہری علاقہ کے ہوں یا دیہاتی‘ کوٹھی ہو یا جھونپڑی کے لئے اس میں ایک کلو واٹ سے کم بجلی کی ضرورت کے مطابق ہی اندراج ہو گا اور لائن سپرنٹنڈنٹ یا الیکٹریکل انسپکٹر تصدیقی مہر ثبت کر دیتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں ہر گھر میں پانی کیلئے موٹر ‘ استری‘ گیزر واشنگ مشین الیکٹرک پنکھے اور کئی کئی … یا انرجی کور کا ہونا عام ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ ٹرانسفارمر اور لوڈ ہو کر جل جاتے ہیں و واپڈا اہلکار عوام سے پیسے بٹور کر پرائیویٹ ورکشاپوں سے مرمت کرواتے ہیں یہ سلسلہ مستقبل میں جاری رہتا ہے یہ سب کچھ واپڈا افسران کے علم میں ہوتا بلکہ وہ بھی اس میں ملوث ہوتے ہیں اور عوام کا خون چوسنے میں لذت محسوس کرتے ہیں کیا حکومت وقت واپڈا میں کرپشن کو ختم کر سکے گی۔ اور عوام پریزائڈنگ نئے کنکشن کے حصول کا طریقہ کار خراب میٹروں کی تبدیلی وائرنگ ٹیسٹ رپورٹ سے جان چھڑوا کر قوم کو ریلیف دے سکے گی اس لئے واپڈا افسران اپنی اور اپنے ماتحتوں کی رشوت ختم کروانے کے لئے اللہ کے حضور سرخروں ہو کر عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنا کر اپنے سلوگن واپڈا کا عزم روشن پاکستان پر عمل پیرا ہونگے امید ہے کہ واپڈا افسران عوام کی خدمت کے لئے اپنے ضمیر ضرور جھنجھوڑیں گے۔
محکمہ تعلیم بھی ہمارے معاشرے میں بدلائو اور پڑھے لکھے معاشرے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے مگر محکمہ تعلیم قصور کیس کی کارکردگی کے لحاظ سے کوئی اہمیت حاصل نہیں لگتا ہے کہ رشوت خوری لاقانونیت میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے میں اہمیت ہے۔ ظاہری طور پر قانون کی پاسداری کو ہی اہمیت دی جاتی ہے مگر پس پردہ پاسداری کی آڑ میں رشوت خوری کو فروغ دیا جاتا ہے محکمہ تعلیم کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی طرف سے دفتری سٹیشنری کمپیوٹر‘ فوٹو سیشن کی ضروریات ہارٹ اینڈ کول لیگل چارجز مشینری مرم اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے لاکھوں روپے کے فنڈز دئیے جاتے ہیں اس طرح سکولوں میں بھی مذکورہ اشیاء اور ضروریات کے لئے ڈی ڈی اوز کو فنڈ مختصر ہوتے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند فصد فنڈزدوران سال خزانہ سے نکلوائے جاتے ہیں اور باقی ماندہ سار یگرانٹ مالی سال کے آخری مہینے جون میں ہی نکلوائی جاتی ہے اور اس مہینے میں ڈسٹرکٹ اکائونٹس آفس میں دس سے پندرہ فیصد کمشن مقرر ہو جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ پرائمری سکولوں میں سٹیشنری ‘ کوئلے برف‘ جھاڑو چاک‘ ڈسٹ بن …… مہیا نہیں کی جاتیں مگر پرائمزی گرلز بوائزسکولوں کے مختص فنڈز ڈی ڈی اوز کے لئے اکائونٹس آفس سے پاس کروا کر حکومتی خزانے سے نکلوا لئے جاتے ہیں مگر حقیقت میں خریداری نہیں ہوتی نہ ہی ان کی پڑتال کا کوئی طریقہ کار ہے ریکارڈ چیک کرنے پر معلوم ہوگا کہ خون میں ظاہر کی گئی خریداری کے بل فرضی ہونگے اور کوٹیشنز بھی جعلی ہونگی محکہ تعلیم قصور نے تبادلوںپر پابندی ختم ہونے کے بعد تبادلوں کے خواہشمند اساتذہ معلمات سے درخواستیں طلب کر لی ہیں اور اس پروگرام کو صاف اور شفاف دکھانے کے لئے میرٹ لسٹیں اور تحقیقاتی کمیٹیاں بنا دی ہیں مگر مک مکا کا سلسہ جاری ہے تصور میں محکمہ کے انتظامی آفیسر کے بارے میں علم ہوا ہے کہ وہ اس وقت پر کسی کاغذ پر دستخط نہیں کرتے جب تک ان کے خاص اسسٹنٹ ڈائریکٹر جو لاہورسے خصوصی طور پر تبادلہ کروا کر قصور آئے ہیں کہ دستخط یا رضامندی شامل نہ ہو۔ حالانکہ موصوف اسسٹنٹ ڈائریکٹر لاہور ہی کے رہاشی ہیں اور پورے ضلع کا نظام اس اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی زیر کمان چل رہا ہے۔ محکمہ تعلیم قصور شہر میں چلنے والے اپنے سکولوں میں تدریسی عملہ کی تعداد پوری کرنے میں ناکام ہے تو ضلع بھر میں اس کی کیا کارکردگی ہو گی حکومت کی طرف سے یونیورسل پرائمری ایجوکیشن پروگرام شروع کیا گیا مگر محکمہ تعلیم کی عدل دلچسپی کی وجہ سے وہ کامیاب نہیںہو سکا۔ بتائی گئی فہرستوں میں واضع فرق ہے اور اس تضادم کو ختم کرنے کے لئے فرضی جمع تفریق کر کے غلط اعداد وشمار کا پلندہ تیار ہوتا ہے جس کی وجہ سے سو فصد حدف داخلہ مہم حاصل کرنے میں ابھی تک ناکامی کا سامنا ہے۔