سیلابی ریلا اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا
راو شمیم اصغر
دریائے چناب کا سیلابی ریلا ضلع ملتان میں تباہی پھیلاتا ہوا آگے بڑھ گیا جس وقت یہ سطور قارئین تک پہنچیں گی۔ اس وقت تک یہ سیلابی ریلا ضلع ملتان کی حدود سے نکل چکا ہو گا لیکن یہ سیلاب اپنے پیچھے ان گنت تباہی و بربادی کی داستانیں چھوڑ گیا ہے اور کئی ایسے سوال ہیں جو عوام کو حیران و پریشان کئے ہوئے ہیں۔ تریموں ہیڈ ورکس سے جب سیلابی پانی ضلع ملتان کی حدود میں آتا ہے تو سب سے پہلے اسے ہیڈ محمد والا سے آمنا سامنا ہوتا ہے۔ ہیڈ محمد والا کا پل سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں بنا اور کہا جاتا ہے کہ جس وقت یہ منصوبہ بندی کی گی اسی وقت کئی بااثر افراد نے اس پل کے اردگرد وسیع پیمانے پر زرعی اراضی خریدی تھی کئی افراد نے ا راضی خریدنے کےلئے اپنے فرنٹ مینوں سے کام لیا۔ اس صورت حال میں ہیڈ محمد والا پل کی تعمیر کےلئے جو منصوبہ بندی کی گئی وہ ان بااثر افراد کی زمینوں کو محفوظ رکھنے کےلئے کی گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہیڈ محمد والا کا رخ ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے جب بھی سیلاب آئے گا مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ پہلے پہل انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ اس پل کے نیچے سے چھ لاکھ کیوسک پانی گزر سکتا ہے اور پھر جب ہیڈ تریموں سے سیلابی پانی ضلع ملتان کی جانب رواں دوان تھا کہ ایک صوبائی وزیر اور انتظامیہ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ ہیڈ محمد والا پل کے نیچے سے دس لاکھ کیوسک پانی گزر سکتا ہے خطرے کی کوئی بات نہیں۔ یہ طفل تسلی تھی یا عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ‘اس بارے تو حکام ہی بہتر بتا سکتے ہیں لیکن حقائق یہ ہیں کہ سیلابی ریلے کا پانی ساڑھے پانچ لاکھ کیوسک تک ہی پہنچا تھا کہ بندوں کو توڑنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہیڈ محمد والا پل میں ڈالے جانے والے شگاف اس لحاظ سے زیادہ خطرناک نہیں تھے کہ سیلابی پانی کی زد میں انسانی آبادی بہت کم آتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہیڈ محمد والا پل سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر بنا شیر شاہ پل ملتان کو مظفر گڑھ سے ملاتا ہے اور پھر مظفر گڑھ سے میانوالی‘ لیہ‘ ڈیرہ غازیخان‘ راجن پور اور بلوچستان کو راستے جاتے ہیں۔ اس پل کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے ایک طرف ملتان کینٹ کا علاقہ ہے دوسری طرف مظفر گڑھ شہر ہے۔ ملتان کینٹ میں بڑی حساس تنصیبات ہیں جن کو نقصان پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ قوم کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں شیرشاہ پل کے نیچے سے نو سے دس لاکھ کیوسک پانی گزرتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ پانی چھ لاکھ کیوسک کو بھی نہیں چھوا تھا کہ بند توڑنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ماضی میں بھی یہ بند ایسے مقام سے توڑا جاتا رہا ہے کہ سیلابی پانی شہری آبادی میں داخل ہونے کی بجائے دریا کے بہا¶ کے ساتھ ساتھ چلتا چلتا دوبارہ دریا میں شامل ہو جاتا ہے۔ شہری آبادی متاثر تو ہوتی ہے لیکن بہت کم۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا کہ دس لاکھ کیوسک دونوں پلوں کے نیچے سے گزر سکتا ہے اور ماضی میں شیرشاہ پل کے نیچے سے گزرتا بھی رہا ہے پھر چھ لاکھ کیوسک کے بعد ہی بند توڑنے کا اہتمام کیوں کرنا پڑا۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ قرار دی جا رہی ہے کہ سالہا سال سے بھل صفائی جیسی ایک ضرورت کو بےکار عمل سمجھ کر ترک کر دیاگیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں غلام حیدر وائیں مرحوم اپنے دور میں بھل صفائی کا ہر سال نہ صرف اہتمام کرتے تھے بلکہ اس میں اسی طرح دلچسپی لیتے تھے جیسے آج وزیراعلیٰ شہباز شریف متاثرین کی امداد کےلئے سیلاب کے ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ بھل صفائی کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ نہروں میں پانی کی گنجائش کافی بڑھ جاتی تھی اور سیلابی پانی زیادہ برداشت ہو جاتا تھا۔ دریائی گزرگاہوں سے مٹی اٹھانے کا عمل اگر سارا سال جاری رہے تو سیلاب کی مصیبت سے کسی حد تک نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اہم پلوں کے اردگرد اور نیچے جو مٹی جمع ہو جاتی ہے اس کا بھی ایک نظام اپنایا جانا چاہئے کہ سارا سال اس مٹی کو ہٹانے کا سلسلہ جاری رہے۔ ہیڈ محمد والا پل میں اگر کوئی تکنیکی خرابی ہے تو اسے دور کرنے کا اہتمام کیا جانا چاہئے اور ماہرین کی ایک ٹیم اس بات کا جائزہ لے کہ اس خامی کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ضلع ملتان میں 300 سے زائد دیہات متاثر ہوئے ہیں جن کی امداد کےلئے نوید سنائی جارہی ہے کہ عیدالاضحیٰ سے قبل ایک قسط انہیں ادا کردی جائے گی۔ متاثرین کی درجہ بندی بھی ازحد ضروری ہے متاثرین کی ایک قسم وہ ہے جو دریائی گزرگاہ کے اندر رہائش پذیر ہے۔ یہی لوگ اپنے مال مویشی لےکر باہر آنے پر تیار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے اپنے مکان اونچی جگہ پر بنائے رہتے ہیں ان لوگوں کا سب سے بڑا نقصان ان کی فصلوں کی تباہی ہوتا ہے یا زیادہ پانی آ جانے کے باعث ان کے نیم پختہ مکان گر جاتے ہیں۔ بیٹ کے علاقوں کے رہائشی صدیوں سے اسی طرح دریا میں زیادہ پانی آ جانے سے عارضی طور پر حفاظتی بندوں پر منتقل ہوتے آئے ہیں جب پانی اتر جاتا ہے تو یہ لوگ دوبارہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ دوسرے متاثرین وہ ہیں جو بندوں کو توڑنے سے متاثر ہوتے ہیں۔ بیٹ کے رہائشی تو ہر سال سیلابی پانی کی توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ بند توڑے جانے سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سیلاب سے اس طرح تباہ ہونگے۔ ان متاثرین کے گھروں میں سیلابی پانی داخل ہو کر ہر چیز تباہ کر دیتا ہے۔ ان ہی لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاءبھی میسر نہیں ہوتیں۔ نہ ہی ان لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیلابی پانی آنے کی صورت میں کس طرح حالات کا مقابلہ کرنا ہے لہذا امداد کی تقسیم کے وقت کیٹیگریز بنانی ازحد ضروری ہیں بیٹ کے رہائشی افراد کو ان کے نقصانات کے مطابق امداد دی جانی چاہئے اور شہری علاقوں کے وہ متاثرین جو بند توڑے جانے سے متاثر ہوتے ہیں اور ساری زندگی کا جمع کردہ ضروریات زندگی کا سامان اور مکان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان کےلئے الگ معیار ہونا ضروری ہے۔ اب ماہرین کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایسے سیلاب آئندہ سالوں میں بھی آتے رہیں گے۔حکمرانوں نے بجلی کے بحران سے نجات کےلئے جس دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصوبے بنائے ہیں اسی طرح سیلاب سے بچا¶ کےلئے تدابیر بھی ازحد ضروری ہیں۔
صوبائی حکومت پر تنقید بالکل درست ہے کہ وہ گزشتہ کئی سال سے برسراقتدار ہے۔ 1992ءکے سیلاب میں بھی یہی لوگ برسراقتدار تھے۔ سیلاب سے بچا¶ کی منصوبہ بندی 1992ءمیں ہی شروع ہو جانی چاہئے تھی۔ اب بھی اگر ماہرین کی ٹیمیں بنا کر سیلابی تباہی سے بچا¶ کےلئے منصوبہ بندی کی گئی اور پھر اس پر عمل کیا گیا تو صرف فصلوں کی تباہی کی صورت میں جو کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے اس سے بچا جا سکتا ہے اور قیمتی انسانی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر وزیراعلیٰ سیلاب کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں ہر سال تباہی ہوتی رہے گی۔ قیمتی انسانی زندگیاں ضائع ہوتی رہیں گی۔