”آﺅ! صُوبے صُوبے کھیلیں!“
”پاکستان بنانے والوں کی اولاد“ کہلانے والے جناب الطاف حسین 22 سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور برطانوی شہری بھی لیکن اِس کے باوجود پاکستان سے اُن کی محبت کم نہیں ہوئی۔ وہ سات سمندر پار بیٹھ کر بھی پاکستان کے کروڑوں عوام کی خیرخواہی کے لیے اور اپنی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائدین کو ویڈیو لِنک کے ذریعے راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کا نام پہلے ”مہاجر قومی موومنٹ“ تھا۔ الطاف بھائی کی یہ جماعت 1947ءمیں بھارت سے ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہونے والے ”اُردو سپیکنگ مہاجروں کی جماعت“ تھی۔ پھر الطاف بھائی نے مہاجر قومی موومنٹ کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اُس کا نام متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا۔ نام وہی رہا یعنی ایم کیو ایم۔ اِس جماعت میں اب ”غیر مہاجر“ بھی شامل ہیں۔
جناب الطاف حسین قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں پیدا ہوئے۔ یعنی موصوف خود مہاجر نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم میں شامل اور پاکستان میں سیاست کرنے والے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی (شاید) خود مہاجر نہیں ہیں۔ مہاجروں کی اولاد ہیں اور ان کی اولاد بھی۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ایم کیو ایم میں شامل ہونے والی آئندہ نسلیں بھی ”مہاجر“ ہی کہلائیں گی۔ ”جب تک سورج چاند رہے گا“ اپنی تازہ ترین تقریر میں جناب الطاف حسین نے حسبِ سابق ایم کیو ایم کی قیادت سے دستبردار ہوکر اپنے چاہنے والوں کو دھاڑیں مار مار کر رونے کا موقع دیا لیکن اپنا فیصلہ واپس لے کر اُن سے زندہ باد کے نعرے لگوائے۔
جناب الطاف حسین نے کہا ”میں واحد آدمی ہوں جو کروڑوں عوام کا قائد بھی ہے۔“ پھر الطاف بھائی نے کہا کہ ”اسٹیبلشمنٹ آئی ایس آئی ایم آئی اور فوج نے بھی سندھ میں کبھی بھی ایم کیو ایم کا ”مہاجر وزیراعلیٰ“ نہیں بننے دیا۔ ایم کیو ایم کو بھائی چارے کے قربانیاں دینے کو کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ”اگر کسی مہاجر کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تو سندھی ناراض ہوجائیں گے“۔ جناب الطاف حسین نے تجویز پیش کی ہے کہ ”سندھی اور مہاجر کو باری باری وزیراعلیٰ بنایا جائے یا سندھ کو انتظامی بنیادوں پر دو حِصّوں میں تقسیم کردیا جائے“۔ یعنی اس طرح تقسیم شدہ سندھ میں دو وزرائے اعلیٰ بن جائیں گے۔ ایک مہاجر اور دوسرا سندھی۔
میں پہلے بھی کئی بار لِکھ چکا ہوں کہ ”مہاجر“ کا نعرہ یا تشخص غلط ہے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے مغربی پنجاب اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں آباد ہونے والے مسلمانوں نے خود کو کبھی ”مہاجر“ نہیں کہا اور نہ ہی اُن کی دوسری اور تیسری نسل نے۔ وہ پاکستانی کہلاتے ہیں اور ”اُردو سپیکنگ پنجابی پاکستانی“ 1947ءمیں مشرقی پنجاب میں ہندو مہاسبھائی غنڈوں اور سکھوں نے 10لاکھ مسلمانوں کو شہید کردیا تھا اور 55ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا کرکے اُن کی عصمت دری کی تھی۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والے اور جانی اور مالی قُربانیاں دینے والے مسلمان بھی پاکستان بنانے والوں کی اولاد“ ہیں لیکن کسی دور میں بھی اُن کی طرف سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ ”پاک پنجاب کا وزیراعلیٰ کسی مشرقی پنجاب کے مہاجر یا ُس کی اولاد کو بنایا جائے“
مشرقی پنجاب اور متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرح مغربی پنجاب اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے اور قائِداعظم کی قیادت میں قیامِ پاکستان کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ جدوجہد کی تھی اور کراچی میں آباد ہونے والے اُردو سپیکنگ مسلمانوں نے بھی۔ پھر صرف ایک سیاسی جماعت کے ”کروڑوں عوام“ کے ماتھے پر ”مہاجر“ کا تمغہ سجا کر انہیں کب تک پاکستانی قوم سے ”الگ یا ممتاز“ بتایا جاتا رہے گا؟ قائِداعظم نے تو فرمایا تھا کہ ”میرا یہ پیغام جس شخص تک پہنچے وہ اپنے دِل میں عہد کرے کہ ضرورت پڑنے پر وہ پاکستان کو اسلام کی پشت پناہ اور دنیا کی ایک عظیم قوم بنانے میں اپنا سب کچھ قربان کردے گا“
جناب الطاف حسین کو اگر پاکستان سے واقعی محبت ہے تو وہ بہت پہلے وطن واپس آکر اپنے ”کروڑوں عوام“ کی قیادت کرتے‘ برطانوی شہریت چھوڑ کر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑتے بھاری مینڈیٹ حاصل کرتے اور وزیراعظم بن کر (مہاجروں سمیت) قوم کی خدمت کرتے۔ اپنی برطانوی شہریت کے حصول کے لیے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کی وفاداری کے حق میں دلیل دیتے ہوئے جناب الطاف حسین کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ”قائِداعظم نے بھی تو گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے برطانیہ کے بادشاہ کی وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا“۔ چہ نسبت خاک را باعالمِ پاک۔ قائِداعظم نے تو کبھی بھی پاکستان سے جلاوطن ہوکر برطانیہ میں پناہ نہں لی تھی۔ برطانیہ کی طرف سے پاکستان کو اقتدار منتقل کرنے کی ایک ٹیکنیکل مجبوری تھی۔ ایک اہم نکتہ کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے 27دسمبر 2002ءکو ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عشرت العباد کو گورنر سندھ مقرر کیا تھا۔ پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آگئی۔ ڈاکٹر صاحب قائم و دائم ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ تو نام کے ”قائم علی شاہ“ ہیں۔
جناب الطاف حسین نے (اپنی تقریرِ دل پذیر میں) وزیراعظم نوازشریف اسلام آباد پر ”حملہ آوروں“۔ جناب عمران خان اور علامہ القادری کو مشورہ دیا ہے کہ ”آپ لوگ کچھ دو اور کچھ لو“ کے فارمولے کے تحت‘ سمجھوتہ کرلیں۔ پنجابی زبان کا ایک اکھان ہے کہ ”ونڈّ کھاﺅ تے کھنّڈ کھاﺅ!“۔ کل کلاں دہشت گردوں کا کوئی گروہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت پر چڑھ دوڑے تو کیا اُس کے لیڈر سے بھی کچھ دو اور کچھ لو کے تحت سمجھوتہ کرلیا جائے؟ یعنی ”مُک مکا؟ “
جناب الطاف حسین نے وزیراعظم نوازشریف، پارلیمنٹ اور شاید اسٹیبلشمنٹ آئی ایس آئی، ایم آئی اور پاک فوج کو بھی مشورہ دیا ہے کہ ”پاکستان میں کم از کم 20صوبے بنائے جائیں“۔ اِس سے پہلے الطاف بھائی کے مُنہ بولے بڑے بھائی طاہر القادری بھی اس طرح کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ القادری صاحب نے بھی ملکہ الزبتھ دوم سے وفاداری کی قسم کھائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو سیاستدان صِرف اور صِرف پاکستان کے شہری ہیں‘ اُن میں سے کسی ایک نے بھی اِ س طرح کی ”پُھلجھڑی“ نہیں چھوڑی۔ فرض کِیا کہ پاکستان میں 20صوبے بن جاتے ہیں تو 20گورنروں، 20وزرائے اعلیٰ، 20صوبائی اسمبلیوں اور اِسی حساب سے اعلیٰ اور ادنیٰ عملے کی ضرورت ہوگی اور اُسی حساب سے اُن سب کے لیے رہائش اور دفاتر کے لیے عمارتیں۔ پھر پاکستان کے وہ 50فیصد لوگ کیا کریں گے جو غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں؟ برطانیہ اور کینیڈا کی حکومتیں تو جناب الطاف حسین اور علامہ طاہرالقادری کی کفالت کرہی لیں گی۔ 20صوبوں کی تجویز پر ”شاعرِ سیاست“ کہتے ہیں ۔
نِت نئے، منصُوبے کھیلیں!
سیاست کے، ملغُوبے کھیلیں!
تقریروں کے خواب، سجا کر!
آﺅ! صُوبے، صُوبے کھیلیں!