مسلم لیگ کا اتحاد وقت کی ضرورت
مکرمی! پاکستان کا حصول مسلم لیگ کا ایک بڑا کارنامہ تھا یہ مسلم لیگ کی خوش قسمتی تھی کہ اسے قائداعظم محمد علی جناح کی بے مثال قیادت میسر آئی۔ مسلم لیگ بنیادی طور پر ایک سیاسی اور جمہوری جماعت تھی اور جمہوری عمل پر غیر متززل یقین رکھتی تھی لیکن قائداعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے اس کا کا رخ صحیح سمت میں قائم نہ رہ سکا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مسلم لیگ کے اندر بھی انتخابات کا عمل جاری رہتا قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جماعت میںجو سیاسی خلا پیدا ہو گیا تھا اسے انتخابی عمل کے ذریعے پورا کیا جاتا ملک میں بھی 1952ءیا 1953ءمیں نئے انتخابات کرائے جاتے‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ وہ جاگیردار اور سرمایہ دار کانگریس کی معاشی پالیسیوں سے گھبرا کر مسلم لیگ میں آ گئے تھے اور 1946ءکے انتخابات کے باعث دستور ساز اسمبلی کے رکن بن گئے تھے‘ مسلم لیگ ہی نہیں‘ پاکستان کے سیاہ و سفید کے بھی مالک بن گئے۔ 1958ءمیں مارشل لاءلگنے کا ایک سب یہ بھی تھا کہ ملک کا سیاسی ڈھانچہ نہایت کمزور ہو گیا تھا۔ مسلم لیگ کو ہی دیکھ لیجئے جس جماعت نے پاکستان بنایا وہ دس برس میں اس قدر کمزور ہو گئی کہ بیساکھیاں ڈھونڈنے لگی۔ کبھی جاگیرداروں کی آلہ کار بنی اور کھی مارشل لاءکے سائے میں سستانے لگی۔ جنرل ایوب خان کے اقتدار کو سہارا مسلم لیگیوں نے ہی دیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اس وقت تک مسلم لیگ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ کاش مسلم لیگ حصوں بخروں میں تقسیم ہونے کے بجائے متحد ہو جاتی اگر ایسا ہوتا تو نہ مارشل لاءلگتا‘ نہ عوام لیگ بنتی‘ نہ علاقائی اور لسانی نفرتیں جنم لیتیں اور نہ پاکستان دولخت ہوتا۔ مسلم لیگ آج بھی مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس کا اتحاد ملک و قوم کی ضرورت ہے لیکن مسئلہ قیادت کا ہے۔ کیا آج مختلف دھڑوں کے رہنما اپنی ذاتی انا چھوڑ کر کسی ایک قیادت پر متفق ہو سکتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک نہایت مشکل کام ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو شاید ہم ملکی و قومی مسائل کو حل کرنے میں اس طرح سے کامیاب نہ ہو سکیں۔ جس کا خواب قائداعظمؒ نے دیکھا تھا۔ (محمد لطیف رانا ۔ لاہور)