ڈیم نہ بنانے کا خمیازہ
اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے خواہشمند دھرنے دئیے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف پاک فوج آپریشن ”ضربِ عضب“ میں محوِِ جہاد ہے اور تیسری جانب ہولناک اور تباہ کن سیلاب نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اس طرح کے کئی سیلاب اس سے پہلے بھی پاکستان میں آ چکے ہیں اور میں اسی طرح کے کئی کالم پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر کسی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ بات پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بھارت جب چاہے آبی جارحیت کے ذریعے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ بھارت نے گذشتہ چھیاسٹھ برس میں چھوٹے بڑے کم از کم چار ہزار ڈیم بنا لیتے ہیں، وہ جتنا چاہے پانی ذخیرہ کر سکتا ہے، جتنا چاہے ہمیں تباہ کرنے کیلئے چھوڑ سکتا ہے اسی باعث ہماری زراعت اور خوشحالی کی چابی اب بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کی شہ رگ تو پہلے ہی سے بھارت کے قبضے میں تھی اب یہ پانی کی کمی اور بہتات کا دار و مدار بھی بھارت پر ہے۔
نواز شریف حکومت نے 1997ءمیں جب کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا تو پورے ملک (خصوصاً سندھ اور خیبر پی کے) میں کہرام برپا ہو گیا کہ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا اور ملکی وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی اور یہ کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا --- وغیرہ وغیرہ --- یہ بیانات پیپلز پارٹی اور دیگر سندھی جماعتوں اور اے این پی کے رہنماﺅں کی طرف سے آئے تھے اور اب بھی یہ لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت سے باز نہیں آ رہے --- ابھی عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں اور وزیراعظم کے استعفے کے مرحلے پر ہی پوری کی پوری پارلیمنٹ جس نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی بھرپور حمایت کی ہے اور استعفے کے مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے اگر میاں نواز شریف کالا باغ ڈیم بنانے کی بات کریں گے تو یہی پارلیمنٹ وزیراعظم میاں نواز شریف سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دے گی۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان سیلابوں نے ہزاروں لوگوں کو نگل لیا ہے، لاکھوں کو بے گھر کر کے کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار بٹھا دیا ہے پھر بھی ان کے دلوں میں ان غریب اور بے سہارا لوگوں کیلئے کوئی ہمدردی پیدا نہیں ہوتی؟ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور حکومت میں آسٹریلیا کی ایک فرم نے ان سیلابوں سے مستقل طور پر نجات حاصل کرنے کیلئے تمام دریاﺅں کو گہرا کرنے کا ایک پلان دیا تھا اور حکومت سے ٹھیکہ مانگا تھا اور یہ گارنٹی دی تھی کہ آئندہ کم از کم دو سو سال تک پاکستان میں سیلاب نہیں آئے گا۔ اسی طرح جاپان کی ایک فرم نے بارشوں کے بعد پانی میں ڈوبے ہوئے لاہور کو دیکھ کر سیوریج سسٹم بچھانے کا ٹھیکہ مانگا اور گارنٹی دی کہ آئندہ چاہے مسلسل تین ماہ بارشیں ہوتی رہیں۔ لاہور کی کسی سڑک، کسی گلی میں ایک انچ پانی کھڑا نہیں ہو گا۔ اب پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور سیلاب کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں۔ حکومت کو ان سیلابوں سے نمٹنے کیلئے مستقل اور دائمی پروگرام بنانا پڑیں گے۔ چھوٹے بڑے ڈیموں کا ایک سلسلہ ہو جس سے بارشوں کا پانی بھی محفوظ کیا جا سکے، سیلابی ریلوں کو بھی قید کیا جا سکے اور بجلی کے بجران پر بھی قابو پایا جا سکے۔ دوسرے پنجاب کے تمام دریاﺅں کو گہرا کرنے کا ٹھیکہ کسی غیر ملکی فرم کو دے دیا جائے تاکہ یہ بے سہارا لوگ جو ہر سال سیلاب کی صعوبتوں سے دوچار ہوتے ہیں اور ان کی دوبارہ آبادکاری پر کروڑوں روپے اُٹھ جاتے ہیں یہ ہمیشہ کیلئے اس عذاب سے بچ جائیں۔ لاہور کی سیوریج کا ٹھیکہ جاپان کی فرم کو دیدیا جائے تاکہ یہ ”ترقی یافتہ“ شہر صحیح معنوں میں ترقی یافتہ نظر آئے ورنہ صورتحال شہزاد احمد کے اس شعر جیسی ہی رہے گی ....
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اُٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر