خیبر پی کے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، پرویز خٹک کی گمشدگی کا اشتہار دیا جائے: نثار
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ ایجنسیاں) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں پر بحث جاری رہی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس شام ساڑھے پانچ بجے شروع ہوا، وزیراعظم نواز شریف 6 بجے ایوان میں آئے۔ حکومتی ارکان اسمبلی نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔ بی این پی عوامی کی سینیٹر نسیمہ احسان نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈی چوک پر ربڑ نہیں دھاتی گولیاں چلائی گئیں دھرنے والے ہم سے زیادہ محب وطن ہیں، ان کو خانہ بدوش نہ کہا جائے، یہ غریب عوام ہیں جنہوں نے ہمیں ان ایوانوں میں بھیجا ہے۔ گھس بیٹھئے وہ نہیں بلکہ دھاندلی سے آنے والے ہیں کیا بھٹو اور بے نظیر نے موجودہ جمہوریت کیلئے جان قربان کی اس جمہوریت کو دیکھ کر ان کی روحیں تڑپ رہی ہیں، عوام سسک کر مر رہے ہیں۔ سینیٹر زاہد خان کے نکتہ اعتراض پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ملک کے چاروں صوبوں میں سے امن و امان کی صورتحال سب سے زیادہ خیبر پی کے میں خراب ہے، صوبہ بھر میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی گمشدگی کا اشتہار دیا جائے۔ وہاں امن و امان کے خراب حالات کیساتھ لاکھوں متاثرین وزیرستان کی ریلیف اور بحالی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ خیبر پی کے میں امن و امان کو بہتر بنانے کیلئے سب سے بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ کو ان حالات میں اپنے صوبے میں ہونا چاہئے لیکن وہ انقلاب برپا کرنے کیلئے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں حالانکہ انقلاب تو ان کیخلاف آنا چاہئے جو عمران خان کے کنٹینر پر ان کے دائیں اور بائیں کھڑے ہیں۔ اس حوالہ سے آئندہ چند روز کے اندر تفصیلی رپورٹ ایک دو روز میں ایوان میں پیش کی جائے گی۔ ایوان چاہے تو جس طرح پی ٹی وی پر حملے کے ملزمان کی تصاویر اشتہارات میں چھاپ رہے ہیں اسی طرح وزیراعلیٰ خیبر پی کے کا بھی اشتہار گمشدگی دینا چاہئے۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر سنیٹر زاہد خان نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کو اسلام آباد میں عمران خان نے یرغمال بنا رکھا ہے، صوبے میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ چند روز قبل امن کمیٹی کے تین ممبران کو شہید کیا گیا۔ وزیراعلیٰ اسلام آباد میں ہیں تو وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کریں۔ پیپلز پارٹی کے سنیٹر سعید غنی نے انکشاف کیا کہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اخلاف محمودالرشید نے دو اگست کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا کہ اسلام آباد میں دھرنے دیئے جائیں گے۔ سپریم کورٹ ان کا نوٹس لے گی اور فوج کو کارروائی کیلئے کہے گی۔ اس دوران ایوان میں مکمل سکوت طاری تھا اور ان کی تقریر نہایت غور کے ساتھ سنی گئی۔ سعید غنی نے یہ انکشاف کرنے کے علاوہ جاری سیاسی بحران کے دوران فوج اور عدلیہ کے طرز عمل کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے۔ سابق چیف جسٹس کے بارے میں ان کے ریمارکس کے علاوہ ان کا کوئی جملہ کارروائی سے حذف نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا محمود الرشید نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں دھرنے سے انارکی پھیلے گی جس کا سپریم کورٹ دستور کی شق 184(3) کے تحت اس صورتحال کا نوٹس لے گی، دستور کی شق ایک سو نوے کے تحت فوج کو کارروائی کا حکم دے گی۔ انہوں نے کہا ہم نے ایک بنک کی انتطامیہ کے خلاف کراچی میں پرامن احتجاجی کیمپ لگایا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے ہمارا کیمپ ختم کرا دیا لیکن اب شاہراہ دستور ایک ماہ سے بند ہے تو عدلیہ کیوں نوٹس نہیں لے رہی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ فوج نے مظاہرین کو پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے سے روکا لیکن پارلیمنٹ ہائوس کے سبزہ زار کی حفاظتی باڑ عبور کرنے سے کیوں نہیں روکا؟ آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ کور کمانڈرز نے کہا کہ وہ قوم کی خواہشات پر پورا اتریں گے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کور کمانڈرز قومی خواہشات کا تعین کریں گے؟ فوج کے بیان میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کسی فریق کے ساتھ نہیں۔ یہاں غیر جانبداری کے بجائے حکومت کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ ریاستی ادارے احتجاج کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ ان اداروں کا طرز عمل ایسا ہونا چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ آرمی چیف پاک فوج کا نام بدنام کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کرائیں اور ان سابق افسروں کی نوکری بحال کر کے فوجی قوانین کے تحت ان کے خلاف تحقیقات کرائی جائے جو اس صورتحال کے ذ مہ دار بتائے جاتے ہیں۔ اس سے عوام کے ذہنوں سے خدشات دور ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والے لوگ بستے ہیں۔ حالیہ سیلابوں اور بارشوں سے وہ برباد ہو گئے ہیں۔ یہ مقبوضہ کشمیر ہے لیکن وہاں بھارت کا کنٹرول ہے۔ بھارتی حکومت انسانیت کے ناطے ان بے بس لوگوں کی مدد کی اجازت دے۔ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کے بارے میں سلامتی کونسل کی قرادادیں موجود ہیں لیکن بھارت انہیں بھی اپنا شہری سمجھے اور ان تک امداد نہ صرف پہنچائے بلکہ ہمیں بھی امداد فراہم کرنے کا موقع دے۔ پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی نے کہا کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے زیر اثر علاقوں میں امداد نہیں پہنچائی جا رہی۔ پاکستان جارحانہ سفارتکاری کے ذریعہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہاں امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی استفادہ کیا جائے، یہ معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا جائے۔ وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں کہا کہ دفتر خارجہ کی وساطت سے بھارت کے ساتھ اس ضمن میں رابطہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتا ہے جو غلط دعویٰ ہے۔ بھارت ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے دعویٰ سے مکر گیا ہے۔ اب بھی وہاں امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے تمام متاثرین کو امداد نہیں دی جا رہی۔ سنیٹر رضا ربانی نے پارلیمنٹ کی مضبوطی اور اہمیت میں اضافہ کیلئے پارلیمنٹ کی چار مشترکہ کمیٹیاں بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے استحقاق‘ دونوں ایوانوں کی قانون سازی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے ‘ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل اور قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں 4 سینیٹرز کو شامل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ وفاقی وزیر برائے ریاست و سرحدی امور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی تجویز پر اعتراض اٹھایا اور کہا اس سے معاملات خراب ہو سکتے ہیں‘ حکومت کی موجودہ سیاسی صورتحال پر فوج سے سہولت کار کی درخواست کو غلط رنگ دیا گیا‘ سینیٹر رضا ربانی اپنی تجویز پر نظرثانی کریں۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے رضا ربانی کی تجویز کی حمایت کی۔ سید خورشید شاہ نے کہاکہ موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ تجاویز اہم ہیں اور یہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ سینیٹر رضا ربانی کی پیش کی جانے والی تجاویز کی تحریری شکل حکومت کو پیش کی جائیں گی اس پر حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر مذاکرات کر لیں۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر غیر حاضر اراکین کو نااہل قرار دینے کی تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دی۔ سپیکر نے کہا کہ یہ معاملہ میرے علم میں ہے‘ اگر نااہلی کی کوئی بات ہوگی تو معاملہ ایوان میں لائوں گا۔ جمعیت علمائے اسلام ف نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ایک بار پھر تحریک انصاف کے ارکان کی رکنیت کالعدم قرار دینے کی رولنگ جاری کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ سپیکر کو مسلسل چالیس روز تک ایوان سے غیر حاضر ہونے والے ارکان کو انکی رکنیت سے فارغ کرنے کا اختیار حاصل ہے، کارروائی کا آغاز کیا جائے۔