• news

ادارے کام کر رہے ہوتے تو ملکی صدر کے آنے پر بھی کہا جاتا ، آپ لیٹ ہیں دوسری فلائٹ میں جائیں: جسٹس جواد

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک پارٹی کے سینیٹر اور اقلیتی ایم این اے کو پرواز سے اتارنے کے معاملے کی ویڈیو کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ادارہ کام کر رہا ہوتا تو لوگوں کو قانون پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت نہ تھی، پاکستان کا ہر شہری وی آئی پی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ویڈیو دیکھ کر بے اطمینان اور بے اطمینانی کی کیفیت میں رہے۔ اطمینان اس بات پر کہ یہ عوامی تبدیلی تھی، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر عوام ہر معاملے میں قانون یوں نافذ کرتے رہے تو یہ رویہ اداروں کی رٹ ختم کر دے گا، میں نے ویڈیو دیکھی جس میں سینیٹر رحمان ملک اور اقلیتی ایم این اے رامیش کمار ایک فلائیٹ میں دکھائے گئے، انہی کی وجہ سے فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی اور مسافروں کو انتظار کرنا پڑا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ صدر پاکستان بھی ہو تو بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے، وقت پورا ہونے پر جہاز کے دروازے بند ہونے چاہئیں، اصل ذمہ داری سیاسی حکومت پر عائد ہوتی ہے وگرنہ فلائٹ پر موجود مسافروں کو قانون پر عمل درآمد کرانے کی کیا ضرورت پڑی۔ مجھے وی آئی پی کلچر پر بڑا تعجب ہوتا ہے، آئین کے مطابق ہر شخص وی آئی پی ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت کو تعریف نہیں عمل درآمد اور نتائج چاہئیں۔ مذکورہ ریمارکس انہوں نے سانگڑھ کیس کے دوران دیئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ادارے کام کر رہے ہوتے تو ملک کا صدر بھی آ جاتا تو کہا جاتا کہ آپ لیٹ ہیں دوسری فلائٹ میں جائیں۔ آلودگی پھیلانے والی آئل و گیس کمپنیوں کی جانب سے ضلع سانگھڑ میں ترقیاتی منصوبوںپر رقم خرچ نہ کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت 13اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی ویب سائٹ بہتر و مکمل کرنے  اور اس پر ڈیٹا لوڈ کرنے کی ہدایت کی جبکہ منصوبوں کی مانیڑنگ کے لئے عوامی نمائندوں و دیگرفریقین کی کمیٹی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ منصوبوںکی تکمیل میں سیاسی حکومتی منشاء کا ہونا بھی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی محکمہ نہیں چل سکتا، عدالت نے حکومت کو نہیں چلانا کیس کا فیصلہ دیکر عدالت اپنے آئینی فرائض سے سبکدوش ہو سکتی تھی مگر عدالت تو اپنی سی کوشش کر رہی ہے اب تک پچیس سماعتیں ہو چکی ہیں، یہ کام تو پالیمنٹرین کا تھا، سالانہ قومی بجٹ تقریباً ساڑھے تین سو ارب روپے ہے لیکن یہاں رائیلٹی اور پروڈکشن بونس کی مد میں  612ارب روپے کے فنڈز وصول ہوچکے ہیں، اب یہ درست انداز میں خرچ ہونے چاہئیں۔ تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تو خیبر پی کے کے آئی ٹی کنسلٹنٹ ظفر اقبال نے کمرہ عدالت میں ملٹی پروجیکٹر سکرین پر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوںسے متعلق فنڈز کے اعداد و شمار، پروڈکشن بونس، میرین ریسرچ اور رائیلٹی کے حوالے سے تیار کردہ سمارٹ ویب سائیٹ سافٹ ویئر کا عملی نمونہ پیش کیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اعتراض اٹھایا کہ آئین کا تقاضا ہے ایسی زبان استعمال ہو جو عام فہم ہو اور باآسانی نچلے طبقے کو بھی سمجھ آسکے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ منصوبے کی تکمیل کے بعد اُ س کے صحیح استعمال سے متعلق بھی آگاہی رکھنا لازمی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پتہ چلے ہینڈ پمپ لگنے کے دوسرے سال وہاں بھینسیں باندھیں گئی ہیں، ویب سائیٹ پر ایسی معلومات ہونی چاہئیں تاکہ عام آدمی بھی اس سے استفادہ حاصل کر سکے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ شاہدرہ کے قریب ایک جگہ سے پچھلے سات سال سے ٹینکر بھر بھر کے آئل چوری ہوتا رہا نیب کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے انہیں پکڑا ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس حوالے سے صوبے کو خود مختار ہونا چاہئے۔ جسٹس دوست محمدنے کہا کہ یونین کونسل سے لے کر صوبے تک منصوبے کی لاگت تک تمام تفصیلات سے آگاہی ہونی چاہئے، اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جانی چاہئے۔ ایک درخواست گذار نے پیش ہو کر بتایا کہ پولیٹیکل ول کو معاملات سے الگ نہیں کیا جاسکتا صوبوں کو چاہئے کہ وہ ضلعی سطح پر کمیٹیاں بنائے جن پر یہ ذمہ داری عائد کی جائے کہ وہ بروقت ڈیٹا کا اندراج کرے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے ڈیٹا کی تصدیق سے متعلق ابہام پیدا ہوجائے گا، پولیٹکل ول ہوگی تو حکومت کا ہر محکمہ چلے گا۔ عدالتی استفسار پر نصر جاوید ڈائریکٹر پی جی پی سی نے بتایا کہ اب تک رائلٹی اور پراڈکشن بونس کی مد میں 612ارب روپے وصول ہوئے ہیں۔ درخواست گذارروشن علی نے کہا کہ کچھ باتوں پر اب بھی تضاد موجود ہے معدنیات نکلنے والے علاقے میں سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنانا، وہاں کے اہل علاقہ کو نوکریاں فراہم کرنا ،صحت تعلیم و دیگر سہولیات کی موجودگی ہونی چاہیے اور زمین کی لیز سے متعلق بھی معاملے کو طے ہونا چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت نے حکومتوں کو نہیں چلانا، ہمار ا سالانہ بجٹ شاید ساڑھے تین سو ارب روپے ہوتا ہے لیکن یہاں 612ارب روپے کے فنڈز وصول ہوچکے ہیں۔ کیس کی سماعت 13اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن