• news

مقبوضہ کشمیر میں آج نام نہاد انتخابات ہونگے ، حریت کانفرنس کا عوام سے بائیکاٹ کا مطالبہ

سری نگر ( اے این این ) حریت کانفرنس نے وادی کے بیشتر علاقوں خصوصا وسط کشمیر کے سرینگر بڈگام اور شمالی کشمیر کے کئی قصبوں میں حریت پسند قائدین ، کارکنوں اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کی اندھا دھند گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ریاستی حکومت نے الیکشن کی آڑ میں کشمیری عوام خاص طور پر نوجوانوں کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے ۔انہوں نے کہاکہ قصبوں اور شہروں کی تمام جیلیں حریت پسند وںاور نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں اور نام نہاد انتخابی عمل کے چلتے امن و قانون کے نام پر جس بے رحمی کے ساتھ نوجوانوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا جارہا ہے اور جگہ جگہ لوگوں کو گاڑیوں سے اتار اتار کر تلاشیاں لی جارہی ہیں شہر و گائوں فورسز کا گشت بڑھا دیا گیا ہے اور چھاپوں کے دوران حریت پسندوں کے بدلے ان کے عزیز و اقارب کو گرفتار کرکے مقید کیا جارہا ہے اس سے ارباب اقتدار و اختیار کی داروگیر پر مبنی پالیسی اور کشمیری عوام کے تئیں انکی غیر جمہوری اور غیر انسانی رویوں پر مبنی پالیسی کا برملا اظہار ہورہا ہے ۔ترجمان نے سرکردہ حریت پسند قائدین اور بیسیوں کارکنوں کی گرفتاری کو سیاسی انتقام قراردیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ظلم و جبر کے یہ ہتھکنڈے مبنی برحق جدوجہد میں مصروف قیادت کے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتی۔ترجمان نے وسط کشمیر کے حریت پسند عوام سے آج ہونیوالے انتخابات سے مکمل دور رہنے کی اپیل دہراتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک آزادی کے تئیں بھر پور استقامت کامظاہرہ ہماری مبنی برحق جدوجہد کی کامیابی کے لئے ناگزیر ہی۔ ادھر  چیئرمین حریت کانفرنس (ع) میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ کشمیرکی موجودہ نسل میں تحریک آزادی کا جذبہ عسکری تحریک سے بھی زیادہ ہے جسے طاقت کے بل پر ختم نہیں کیاجاسکتا ٗ چہروں کی تبدیلی اور حکومتیں بدلنے سے مسئلہ کشمیر کی ہیئت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا ٗ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان ٗ بھارت اور کشمیری عوام کو مل بیٹھنا ہوگا ۔تنازعہ آج نہیں تو کل ضرور حل ہوجائیگا ۔ گزشتہ روز یہاں سرینگر میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ  نے مزید  کہاکہ مسئلہ کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ کی طرح نہ کہ انتظامی یا امن و قانون کے مسئلے کی طرح لیاجائے ،یہ مسئلہ نہ ہی انتخابات یا حکومتیں بدلنے سے حل ہوسکتاہے اور نہ ہی طاقت کے زور پر بلکہ اس کیلئے  سہ فریقی مذاکرات ناگزیر ہیںاور کوئی بھی پہل کرنے سے قبل بھارتی  قیادت کو اپنی پالیسی اور سوچ میں تبدیلی لاناہوگی۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بھارت پاکستان اور کشمیری مزاحمتی قیادت کے درمیان با معنی بات چیت کا عمل نا گزیر ہے اور یہ ہمارا آج کا موقف نہیں بلکہ شہید ملت نے 1975میں گول باغ کے عوامی جلسے میں سہ فریقی مذاکرات خاکہ پیش کیا تھا۔انہوںنے کہاکہ  دنیا کو یہ واضح پیغام دینا ہوگا کہ کشمیر کوئی امن وامان ، اندرونی ، سرحدی،انتظامی، مذہبی یا کوئی معاشی مراعات کا مسئلہ نہیں عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور عالمی برادری کو کشمیری عوام کی رائے کے احترام میں اس مسئلے کے حل کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ  دور چلاگیا جب فوج اور طاقت کے بل بوتے پر کسی قوم کو دبایا جاتاتھا۔انہوںنے مزید کہاعوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہے اور ہندوستان کو اس حقیقت کااقرار کرناہوگا، انہوںنے کہاکہ اگر ہندوستان اپنی ساری اقتصادی قوت پر بھی کشمیر پر صرف کردے تو اس کی ہیئت تبدیل نہیں ہوگی ۔ پاکستان بھی کشمیر مسئلہ کی وجہ سے اپنا بھاری بجٹ خرچ رہاہے اوردونوں ملکوں کی ترقی کیلئے کشمیر کے بنیادی مسئلے کو حل کرنالازمی ہے۔ انہوںنے کہاکہ نواز شریف نے نریندر مودی کو دعوت دی لیکن یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن کشمیر مسئلہ کی خاطر عملی اقدامات کئے جائیں۔ تاخیری حربوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بامعنی مذاکرات کئے جائیں جس میں کشمیری قیادت شامل ہونی چاہئے۔ وقتی طور پر دھونس دبائو کی پالیسی سے جذبہ آزادی ختم نہیں ہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن