میرا پاکستان بچا لو!
ہر ملک کی عوام کا ایک خواب ہوتا ہے کہ اُس کے ملک میں امن و آشتی کا دور دورہ ہو، مفلس و نادار لوگوں کی تعلیم کے مسائل برابری کی سطح پہ حل کیے جائیں، روٹی،کپڑا،پانی اور روزگار کے مسئلے سے دوچار نہ ہونا پڑے، زندگی کی مراعات سے امیر غریب میں سے کوئی بھی محروم نہ رہے۔ دفاتر سے لے کر کاروبار تک سب کچھ ایک منظم طریقے سے چلے اور ہر طرح کا انصاف فوری طور پر دیا جائے۔ یہ خواب دیکھتے دیکھتے 67 سال گزر گئے۔ اس دوران اچھے بُرے تمام حالات چلتے رہے۔ کبھی انصاف اور جمہوریت کا بول بالا رہا کبھی نا انصافی اور ظلم کی شرح بڑھ گئی۔ نظامِ کائنات میں بھی دُکھ سکھ ،غمی خوشی،دن اور رات کے استعارے سے نظر آتے ہیںمگر ہم نے کبھی سوچا کہ دن رات،سورج، چاند یا ستاروں کا آپس میں کبھی تصادم ہوا،کبھی نہیں، تو انسان بھی تو پھر اُسی نظام کا حصہ ہے اُس میں تصادم، جھگڑے،قتل و غارت، خونریزی، ناانصافی، کرپشن، چور بازاری، جھوٹ، ڈاکہ اور دہشت گردی، آخر یہ سب کیوںاس لیے کہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا۔ اس لیے کہ اللہ نے ہمیں اپنا نائب چُنا۔احساس زیاں تو کیا انسان کو آج احساسِ گناہ بھی نہیں ہے۔ ضمیر کو جکڑنے والی زنجیریں کسی دلدل کی نذرہو چکی ہیں۔ احتساب کے ہالے کو گرہن لگ چکا ہے۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو لوٹ رہے ہیں۔ ہم کسی پہ الزام کیوں دیں ہم اپنی آستین کے خود ہی سانپ بن چکے ہیں۔۔۔ہمارے ملک کا آئین و دستور تباہ ہو رہا ہے، ہماری معیشت برباد ہو رہی ہے، ہمارا منشور تار تار ہو رہا ہے، ہماری املاک مسمار ہو رہی ہیں، ہمارے ذخائر آگ میں جھلس رہے ہیں، ہماری نسل غیر محفوظ ہونے کے احساس کے ساتھ ساتھ باغی ہو رہی ہے، جمہوریت کے جھنڈے اُکھڑ رہے ہیں اور مارشل لاء کے بادل منڈلا رہے ہیں۔۔۔۔عوام یوں سڑکوں پہ پتھر اور گولیوں کی یلغار کی زد میں ہے کہ جیسے وہ آپس میں کوکلا چھپاکی کھیل رہے ہوں۔ یہ پتھر اور اینٹیں وہ ہیں جنہیں کوٹ کر یا بھٹی میں پکا کر گھر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ سکون کے لیے، محبت کے لیے، حفاظت کے لیے مگر آج اُنہی پتھروں کو خون بہانے کے لیے، حفاظتیں مفقود کرنے کے لیے اور زندگیاں معذور کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔وہ اسلحہ جو ملک دشمن عناصر کے لیے بنایا یا خریدا جاتا ہے اُس کا نشانہ ایمان افروز سینے بن رہے ہیں۔ ان ایمان پرور سینوں پہ جب وردی سجتی ہے تو وہ کافروں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہیں مگر اپنے وطن میں اپنے مسلمانوں کے سامنے اس بدن کو جسدِ خاکی بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ کہاں کی انسانیت ہے۔14 اگست کے محترم اور عظیم دن کو تابناک اور روشن بنانے کے لیے 67 سالوں سے کوششیں جاری ہیں اور ہر سال اس جشن کو آزادی کی عید کے طور پہ منایا جاتا ہے مگر اس مرتبہ عجیب کشمکش تھی،عجیب گھبراہٹ،غیر یقینی کیفیت کا دور دورہ تھا۔ غیر محفوظ ہونے کا احساس ہر ذی شعور کے ذہن میں جاگزیں تھا۔ ہر انسان ہراساں تھا کہ نجانے اب کیا ہو گا۔
جمہوریت کے اس دور میں جمہوریت کو نہ پنپنے دینا ایک گھمبیر سوال ہے۔ اس سوال کے جواب میں جب اپنے ملک کی عزت کا پامال کر نے کے لیے ہمارے نام نہاد لیڈر سڑکوں پہ نکل آئیں تو حُرمتِ وطن پہ آنچ تو آتی ہے۔ یہ مسئلہ کوئی گھر کا نہیں کروڑہا عوام کے پیارے وطن پاکستان کا ہے جس کو بنانے کے لیے لہو بہایا گیا اور سیراب کرنے کے لیے لہو سینچا گیا مگر شو مئی قسمت اس کو گزند پہنچانے کے لیے بھی آج لہو بہایا جا رہا ہے۔ جسموں کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں۔ آنسو گیس شیلنگ ربر بلٹس،ڈنڈے اور نجانے کیا کیا استعمال کیا جارہا ہے۔ 14اگست 1947 میں بگھیوں میں کٹے لُٹے پٹے مسلمان خاک وطن پہ سجدہ ریز ہوئے تو اُن کے زخم بھر گئے مگر آج یہ زخمی مسلمان درد سے کُرلاتا خون سے لُتھڑا ہوا پاکستانی جب خاک وطن پہ گرتا ہے تو دم توڑ دیتا ہے کتنا بڑا المیہ ہے کہ سر زمین بھی وہی ہے وطن بھی وہی ہے، مسلمان بھی وہی ہے، لہو بھی وہی ہے، زخم بھی وہی ہے مگر مرہم ندارد۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ عوام کی رائے شماری سے آنے والی حکومتیں یا کسی بھی پارٹی کے سیاسی لیڈر ایسا نصب العین لے کے تو نہیں آتے قرآن پہ ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھانے والے (کہ کیا پاکستان کی حُرمت پہ جان لُٹا دیں گے) آج پاکستان کی رگوں سے لہو نچوڑنے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ آخر کیوں؟ عوام کا قصور کیا ہے؟ یہ کہ وہ ٹیکس دیتی ہے،ووٹ ڈالتی ہے،ملک کی معیشت کر بڑھاتی ہے اور مہنگائی کا مقابلہ کرتی ہے عوام کو کس بات کی سزا بھُگتنی پڑ رہی ہے۔ہماری عوام بد عنوان نہیں یہ ادارے، سیاستدان اور حکومت ہے۔
پاکستان عالمی سطح پہ ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور پوری دنیا کی نگاہیں نہ صرف اُس کی اس طاقت پہ ہیں بلکہ اس کی افواج پہ اُن کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ وہ افواجِ پاکستان کی طاقت،عزم،جذبہ ایمانی اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر لڑنے کے جذبہ سے ڈرتی ہیں۔ لیکن آج کیا ہو رہا ہے؟ وہی ایٹمی طاقت والا ملک ٹکڑے کر دیے جانے کے در پہ ہے۔ (نعوذ بااللہ) آج اُسی افواج کو اپنی سرحدوں کی حفاظت سے توجہ ہٹانے پہ مجبور کر کے اندرونی انتشار کو ختم کرنے کے لیے بُلایا جا رہا ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ ہم میں آج تک پاکستان کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے جو آج ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ کب بند ہو گا۔ خُدا را اپنے اپنے مفاد سے نکلیں اور اپنا پاکستان بچا لیں۔۔۔میرا پاکستان بچا لیں۔