ہوائی جہاز میں دھرنا اور بلاول پنجاب میں
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کراچی کے ائر پورٹ پر ہوائی جہاز میں صرف دو تین گھنٹے لیٹ ہونے پر رحمان ملک اور مسلم لیگ ن کے ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار کو سوار نہیں ہونے دیاگیا تو عمران خان کا کریڈٹ ہے مگر کریڈٹ کے ساتھ کریڈیبلٹی بھی ضروری ہے۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز میں تین گھنٹے کا دھرنا ہو گیا تھا؟ رحمان ملک ڈر کے مارے دروازے سے ہی واپس چلے گئے اور ن لیگی ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار کو سیٹ سے اٹھا کر باہر نکال دیا گیا۔ یہ واقعہ کچھ دن پہلے تک نہیں ہو سکتا تھا۔ کئی دفعہ وی آئی پی لوگ اس طرح کی خرمستیاں کرتے رہے ہیں اور لوگ صرف صبر کرتے رہے۔ اس صبر کا کوئی اجر نہیں ہوتا۔ اب فلائٹ پکڑنے کے لئے لیٹ آنے پر ممبران اسمبلی وزیروں اور سابق وزیران یعنی وی آئی پی انسان سو بار سوچیں گے جو کچھ لوگوں نے ان دونوں کے ساتھ کر دیا ہے بالکل غیرقانونی نہیں ہے۔ قانون کو لاقانونیت کے لئے استعمال کرنے والوں کے ساتھ دو بارہ ایسا ہو گیا تو پھر معاملات کچھ ٹھیک ہو جائیں گے۔
کہتے ہیں کہ جہاز ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے لیٹ تھا۔ اب اس وجہ سے یا کسی وجہ سے ہمارے جہاز خراب ہوتے ہیں اور لیٹ ہوتے ہیں تو مسافروں کو جہاز پر کیوں بھیجا گیا جہاں گرمی میں کھڑے جہاز کے اندر ائرکنڈیشنڈ بھی نہیں چلتے۔ مسافر لاﺅنج میں بیٹھے رہتے۔ لاﺅنج میں دونوں وی آئی پیز بھی ان کے ساتھ آ کے بیٹھتے تو کوئی بے چینی نہ ہوتی۔ رمیش کمار کو سرکاری جماعت کے ایم این اے ہونے کا زعم تھا اور رحمن ملک کبھی وزیر داخلہ تھے۔ اب وہ ساری عمر کے لئے سابق وزیر داخلہ ہیں۔ مفاہمت کے لئے جس جرگے کے وہ نمائندہ ہیں تو اس کے انجام سے کون واقف نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار بھی سمجھوتے کے حق میں نہیں ہے۔ مفاہمت کے ماہر تو ”صدر“ زرداری ہیں مگر جب وہ کسی دوسرے کو مفاہمت کے لئے مقرر کرتے ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
رحمان ملک اس معاہدے میں بھی شریک تھے جو شہید بی بی اور صدر مشرف کے درمیان ابوظہبی میں ہوا تھا۔ رحمن ملک نے ہی موبائل فون پر پابندی لگائی تھی۔ ڈبل سواری پر پابندی کا خیال بھی انہی کے دل میں آیا تھا۔ وہ دہشت گردی تو نہ روک سکے مگر عام لوگوں کو اذیت اور ذلت میں تو مبتلا کر گئے۔ ہمارے لوگ بدحال اور بے حال ہیں۔ وہ خود ادھ موئے ہو چکے ہیں۔ مر گئے ہوتے تو جان چھوٹ جاتی مگر ان کی حس مزاح زندہ رہتی ہے۔ توہین اور تنگی کے دنوں میں موبائل پر ایس ایم ایس دیکھیں تو ہنس ہنس کر آنسو نکل آتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہنسنے پر بھی آنسو نکل آتے ہیں۔ بے اختیار بے وسیلہ لوگ رو ہی سکتے ہیں۔
ماڑے دا کیہہ کم محمد رونا یا نس جانا
اب وہ صرف روئیں گے نہیں وہ ظالموں بدمعاشوں حاکموں اور افسروں کو بھی رلائیں گے۔ ناجائز بات پر اب لوگ خاموش نہیں رہیںگے۔ ایک آدمی موٹر سائیکل پر تین سواریاں بٹھا کے جا رہا تھا۔ ان میں ایک خاتون بھی تھی۔ یعنی پورا خاندان موٹر سائیکل پر تھا۔ اسے پولیس والوں نے روکا۔ پولیس والوں کا زور صرف موٹر سائیکل والوں پر چلتا ہے۔ کہا گیا کہ ڈبل سواری پر پابندی ہے۔ اس نے کہا کہ ڈبل سواری پابندی ہے ٹرپل سواری پر تو پابندی نہیں ہے۔ پولیس والے اس کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان کا قانون ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ رحمان ملک اور قائم علی شاہ نے کبھی اس طرح موٹر سائیکل پر سفر کیا ہے۔ کسی وزیر شذیر سے پوچھا گیا کہ اگر کراچی میں نائن الیون جیسا واقعہ ہو جائے تو کیا کیا جائے گا۔ وزیر صاحب نے دو کروڑ کی گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے بڑی بے پروائی سے کہا ہم ڈبل سواری پر پابندی لگا دیں گے۔ آج کل بھی کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی ہے۔ شاید کوئی حادثہ ہونے والا ہے خدانخواستہ؟
کراچی ائر پورٹ پر جہاز میں لوگوں کے ردعمل اور کامیابی کے واقعہ کا کریڈٹ عمران خان کو دیا جا رہا ہے تو اس نے خود ایک تقریر میں یہ کریڈٹ خود بخود لے لیا ہے۔ اب اس طرح کے واقعات ہوں گے۔ یہ واقعات خود ہمارے وی آئی پیز کے پیدا کردہ ہوں گے۔ جو عام لوگوں کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں۔ عمران کے ایگریسو رویے کے منفی پہلو بھی ہیں مگر یہ تو مثبت پہلو ہے کہ لوگ اپنے حق کے لئے اپنی عزت نفس کے لئے کھڑے ہو جائیں کہ نرمی سے وی آئی پیز نہیں مانتے ہیں۔ وہ عام انسانوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ اشرافیہ بدمعاشیہ بن چکی ہے۔ ایم این اے ایک ہوتا ہے مگر اس کے خاندان کے سب لوگ اپنی گاڑیوں پر ایم این اے لکھوا لیتے ہیں۔ ان گاڑیوں کا نہ تو چالان ہو سکتا ہے اور نہ کوئی روک ٹوک ہوتی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ 28 گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سیلاب زدگان کے علاقے میں گئے۔ کراچی میں گاڑیوں اور دھوئیں کا سیلاب آ گیا۔ ٹریفک پھنس گئی۔ سیلاب سیل آب بن گیا۔ قائم علی شاہ کو میں قائم مقام علی شاہ کہتا ہوں۔ اس عمر رسیدہ آدمی کو دوبارہ وزیراعلیٰ بنانے کے لئے ایمرجنسی تھی۔ پچھلے پانچ برسوں میں انہوں نے کیا تیر مارا ہے۔ تیر پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ حکام اور عوام کا حال یہی ہے جو اس شعر میں ہے۔ اب شیر ببر شیر ہے اور شیر مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان ہے۔
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
اب لوگ ستمگر سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ ”صدر“ زرداری کو اپنی اتنی بڑی پارٹی میں ایک بھی آدمی ذرا کم بوڑھا نظر نہیں آیا جسے وزیراعلیٰ بناتے۔ دوسری بار بھی انہی کو وزیراعلیٰ بنا دیا تو انہیں کونسا سرخاب کا پر لگا ہوا تھا؟ اس سے بہتر تھا کہ شرمیلا فاروقی کو وزیراعلیٰ سندھ بنا دیا جاتا۔ خدا کی قسم وہ ہزار درجے بہتر حکمران ہوتیں۔ ٹی وی چینلز میں ان کی گفتگو آرزو اور جستجو میں گھلی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ بڑے اعتماد سے مخالفین کا مقابلہ کرتی ہیں۔ قائم مقام علی شاہ سے تو ایک جملہ بھی تسلسل اور اعتماد سے نہیں بولا جاتا۔
ایاز سومرو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بڈھے کھوسٹ کے ساتھ نہیں ہیں۔ ہم بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ہیں۔ جو نوجوان ہیں۔ انرجی اور اعتماد سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ بہت زبردست انداز میں بولتے ہیں۔ وہ بھی بھٹو صاحب کی طرح مخالفین پر حملہ آور بھی ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں مزاح بھی ہوتا ہے۔ اور معانی بھی ہوتے ہیں۔ وہ بڑے سینئر لوگوں سے زیادہ اچھا بولتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی عمریں گزر جاتی ہیں مگر انہیں بات کرنا نہیں آتی۔
بلاول نے سیلاب زدگان کے لئے 30 ٹرک پنجاب بھجوائے ہیں۔ اور یہ سامان منظور وٹو اور چھوٹے کائرہ صاحب کے سپرد کیا ہے۔ اب وہ خود بھی پنجاب آ گئے ہیں۔ یہ انہوں نے اچھا کیا ہے۔ اس طرح ان کی سیاست سندھ تک محدود نہیں ہو گی۔ وہ پاکستان کے سیاستدان ہیں۔ ہر کہیں فریال تالپور اور شیری رحمان ان کے ساتھ تھیں۔ یہ بھی ایک اچھا تاثر ہے۔ اچھا ہوتا کہ بختاور بھٹو زرداری بھی ان کے ساتھ ہوتی۔ شکر ہے کہ رحمان ملک ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
بلاول کے قافلے میں اتنی گاڑیاں نہ تھیں۔ وہ میڈیا کی تنقید کی زد میں نہیں آئے۔ سکھیرا ائر پورٹ پر قائم علی شاہ نے ان کا استقبال کیا۔ اب یہی کام ان کے کرنے کے لئے رہ گیا ہے۔ میرا مشورہ ان کے لئے یہ ہے وہ اب ایسے ہی کام کیا کریں۔ شرجیل میمن ان کی مدد کریں۔ اب سیلاب سندھ میں داخل ہو گیا ہے۔ قائم علی شاہ اور شہباز شریف کا فرق لوگوں کو صاف پتہ چل جائے گا۔
آخری بات بلاول بھٹو زرداری کے لئے یہ ہے کہ وہ کوشش کر کے کالا باغ ڈیم بنوانے کے لئے راہ ہموار کریں۔ وہ یہ کر سکتے ہیں۔ سندھ کے لوگوں کو بھی منوا سکتے ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے پیار کرنے والے سارے پاکستان میں ہیں۔ سندھ میں خاص طور پر جیالوں اور جیالیوں کی اکثریت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں شہید بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کی قبروں پر حاضری دوں اور وہاں منت مانوں کہ ان کی سیاسی وراثت کے پاسبان بلاول بھٹو زرداری کالا باغ ڈیم بنوانے میں کردار ادا کریں۔ اس طرح سندھ کے عوام کا بھی بھلا ہو گا۔ سیلاب سے نجات ملے گی۔ زمینوں کو پانی ملے گا۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا اور مہنگائی رک جائے گی۔ جو بھی لیڈر کالا باغ ڈیم بنوانے میں کامیاب ہو گیا وہ ناقابل شکست ہو جائے گا۔ وہ ہیرو ہو گا اور لوگوں کا غیرمشروط محبوب لیڈر بن جائے گا۔ بھٹو صاحب بھی کالا باغ بنوانا چاہتے تھے مگر نجانے کیا ہوا؟ بے نظیر بھٹو کو ان کے مفاد پرست شیروں نے روکے رکھا۔ اب بلاول یہ عظیم کام کر سکتا ہے۔ اور نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ وہ یہ معرکہ آرائی ضرور کرے گا۔