• news

سیلاب: اٹھارہ ہزاری بند کے اندر اور باہر کے اکثر دیہات کھنڈر بن گئے

اٹھارہ ہزاری (منور کھوکھر سے) اٹھارہ ہزاری میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث 80 فیصد علاقوں کے مکانات گر گئے جو بچے ہیں ان میں بھی اکثر دراڑیں پڑنے سے فرش بیٹھ جانے سے ناقابل استعمال ہو گئے۔گندم اور سامان پانی بہا لے گیا، لوگ تاحال امداد کے منتظر ہیں۔ جہلم و چناب میں آنے والے سیلابی ریلے نے تحصیل اٹھارہ ہزاری کی تباہی کی داستان رقم کر دی ہے۔ اٹھارہ ہزاری بند کے اندر اور باہر موجود اکثر دیہات کھنڈر بن گئے ہیں۔ دربار اٹھارہ ہزاری، تحصیل چوک، 5 مرلہ سکیم کی نصف آبادی 30 کے قریب دکانیں ملیامیٹ ہو گئیں دیگر دکانوں اور مکانوں کا صرف فرنٹ کا حصہ بچا ہے۔ دکانوں میں موجود بھاری بھر کم سامان کو بھی پانی کا ریلا بہا کر لے گیا۔ نواحی علاقہ جات عمرانہ جنوبی، کامرہ، بیلہ چونترہ، بستی سنگھا، جوتیاں والا، انارا والا، بتافی، کلر قریشی، چک جانپور، میانہ، بلو پاتوانہ، دھبی بلوچاں، کوٹلہ نیک احمد، عالمہ غربی، لڑھکا، سبھیانہ غربی، پیر کوٹ سدھانہ، مسن، رجبوآنہ شید پور، بنڈہ رشید پور، بنڈہ جبوآنہ واصو آستانہ، کوٹ مراد، منڈے سید، دوسہ قریشیاں، ٹبہ گہلی، سلطان لشاری، بستی جمالی، لاشاری، درگاہی شاہ، تراوڑ و دیگر علاقوں ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے لوگوں کے سامان، گندم بہہ گئی کئی مویشی بھی تیز موجوں کے ساتھ بہتے چلے گئے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ابھی بھی کئی افراد پانی میں پھنسے ہوئے بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں۔ ان تک تاحال امدادی کارکن نہ پہنچ سکے، حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے امداد پہنچائی گئی وہاں بھی انصاف نہ ہو سکا کسی کو تیس، تیس پیکٹ مل گئے تو کوئی بالکل ہی محروم رہا، ہیلی کاپٹر سے پھینکے گئے راشن کے تھیلوں کی پیکنک اتنی ناقص تھی کہ نیچے گرتے ہی اس میں موجود اشیاءگھی چینی وغیرہ ضائع ہو جاتی اشیاءبھی دو نمبر کوالٹی کی تھیں۔ سیاسی شخصیات اپنے چہیتے افراد کو نواز رہے ہیں متاثرین امداد نہ ملنے کی وجہ شدید اضطراب میں ہیں۔
دیہات کھنڈر بن گئے

ای پیپر-دی نیشن