دھرنوں کی اجازت وزیراعظم نے دی پھر دفعہ 144 کیوں لگائی؟ سکول 23 ستمبر تک پولیس سے خالی کرائے جائیں : اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے 23 ستمبر تک وفاقی دارالحکومت کے 16 سکولوں کو پولیس سے خالی کرانے کی ہدایت کی ہے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور پی ٹی آئی کے رکن قومی ا سمبلی اسد عمر کو لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت عالیہ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر سکولوں کو پولیس سے خالی کرانے میں کوئی رکاوٹ ہو تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف سے بیان حلفی طلب کیا ہے کہ دھرنے میں کوئی شرپسند نہیں ہو گا۔ دوران سماعت فاضل جسٹس نے آبزرویشن دی کہ موجودہ حالات کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد میں دفعہ 144 کے نفاذ اور کارکنوں کی مبینہ غیر قانونی گرفتاریوں کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ تحریک انصاف کی قیادت نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے باوجود تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی تو دفعہ 144 کے نفاذ کو معطل کر دیں گے۔ فاضل جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حکومت نے دھرنے کی اجازت دے کر دفعہ 144 بھی نافذ کر دی ہے، یہ غیر منصفانہ اقدام ہے۔ دھرنے کی اجازت کے بعد پرامن شہریوں کو گرفتار کرنا ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔ پولیس سپریم کورٹ کے سی سی ٹی وی کیمرے توڑنے اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے والے ملزموں کو گرفتار کرے۔ سماعت کے موقع پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیر دل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک فیصل رفیق، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، رکن قومی اسمبلی اسد عمر، صدر تحریک انصاف خیبر پی کے اعظم سواتی، اعجاز چودھری اور ان کے وکیل فرخ ڈال ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی کمشنر مجاہد شیر دل سے استفسار کیا کہ جب احتجاج اور دھرنے کی اجازت دی گئی تو دفعہ 144 کیوں لگائی گئی۔ مجاہد شیر دل نے کہا کہ میں نے بطور ڈپٹی کمشنر دھرنے کی اجازت نہیں دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت خود ٹی وی پر آکر کہتی ہے کہ دھرنے کی اجازت دی گئی، کیا آپ کے کام میں کوئی مداخلت کر رہا ہے۔ مجاہد شیر دل نے کہا کہ اگر کوئی دبا¶ ہوتا تو اس سے زیادہ گرفتاریاں ہوتیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے بھی توڑے گئے، کسی پر تو ذمہ داری عائد کرنا ہو گی۔ عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 63 میں سے 16 سکول ابھی تک نہیں کھولے جا سکے جس پر فاضل جسٹس نے کہا کہ کسی کے حقوق یا قانون کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔ بچوں کے سکولوں پر قبضہ کرنا انسانی حقوق کی بھی خلاف و رزی ہے۔ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنا جرم ہے، آپ اس بات کا تعین کر کے عدالت کو آگاہ کریں گے کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے میں کون رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم پرامن جماعت ہیں اور عدالتوں پر مکمل یقین رکھتے ہیں تاہم ضلعی انتظامیہ پر اعتبار نہیں کر سکتے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو عدالت نے کنٹینر ہٹانے کا حکم دیا تھا جس پر وہ عمل نہیں کر رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ عدالتی حکم پڑھ لیں عدالت نے صرف غیر ضروری کنٹینر ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنا دینے والے غیر قانونی کام کر رہے ہیں جس پر فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈی چوک میں دھرنا دینے کی ا جازت وزیراعظم نے دی ہے آپ کے خیال میں کیا وزیراعظم نے غیر قانونی اقدام کیا ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ عدالت حکم دے کہ جڑواں شہروں سے دھرنے میں شرکت کے لئے آنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار نہیں کیا جائے گا جس پر فاضل جسٹس نے کہا کہ ایسا حکم سوچ سمجھ کر دیں گے، اگر ڈی چوک میں کوئی شخص چوری کرے اور پھر پولیس سے کہے کہ مجھے گرفتار نہ کریں کیونکہ میں پاکستان تحریک انصاف کا کارکن ہوں۔ عدالت نے مزید سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کر دی۔ دریں اثناءاسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کارکنوں کی گرفتاریوں اور انہیں حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف درخواست کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے کہا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف مقدمے کے ساتھ اس درخواست کی سماعت کی جائیگی۔ تحریک انصاف کے رہنما¶ں اعظم سواتی اور اعجاز چودھری کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت عدالت عالیہ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ