برطانیہ ٹوٹنے سے بچ گیا‘ سکاٹ لینڈ کے عوام کا ریفرنڈم میں علیحدگی کیخلاف فیصلہ
لندن (بی بی سی+ اے ایف پی+ رائٹر+ ایجنسیاں) برطانیہ سے علیحدگی حاصل کرنے یا ساتھ رہنے کے لئے تاریخی ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈکے عوام نے برطانیہ کے حق میں فیصلہ دے کر علیحدگی کو مسترد کر دیا ہے۔ 55 فیصد نے برطانیہ سے علیحدگی کی مخالفت کی جبکہ 45 فیصد نے تاج برطانیہ سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ 32 کونسلز میں سے 26 نے ”نہ“ کے حق میں ووٹ دیا جس سے سکاٹش نیشنل پارٹی کو عبرتناک شکست ہو گئی۔ ریفرنڈم میں ووٹروں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا سکاٹ لینڈ کو آزاد ملک ہونا چاہئے۔ اس پر ہاں یا نہ میں جواب مانگا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق 2,001,926 ووٹرز نے ”نہ“ اور 1617,989 ووٹرز نے ”ہاں“ کے حق میں ووٹ دیا۔ اس عمل سے برطانیہ 2 ٹکڑے ہونے سے بچ گیا۔ سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر ایلیکس سیمنڈ نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ دوسری جانب برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد خطاب میں کہا ہے کہ انہیں اس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ برطانیہ متحد رہے گا اور اضافی اختیارات دینے کے وعدوں کا احترام کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں موجود تین مرکزی جماعتیں اب سکاٹش پارلیمنٹ کو زیادہ اختیارات کے عزم کو قابل عمل بنانا ہو گا۔ ’ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان وعدوں کا مکمل احترام کیا جائے گا۔‘ اس ریفرینڈم میں جیت کے لیے فریقین کو جیتنے کے لیے ک±ل 1,822,942 درکار تھے۔ پہلے 24 نتائج میں سے صرف چار کونسلز نے ’ہاں‘ کے حق میں ووٹ دیا۔ نتائج کے بعد اب سکاٹ لینڈ کو زیادہ اختیارات دینے کے بارے میں بات چیت ہو گی۔ سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر ایلیکس سیمنڈ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ’ یہ کہنا اہم ہو گا کہ ریفرنڈم کا عمل رضامندی اور منظوری پر مبنی تھا۔ سکاٹ لینڈ کی اکثریت نے اس وقت علیحدہ ملک بننے کے بارے میں طے نہیں کیا۔‘ پولنگ مقامی وقت کے مطابق رات دس بجے تک جاری رہی۔ ووٹنگ کے مرحلے بند ہونے کے بعد یو گو (YouGov) کے سروے میں کہا گیا تھا کہ آزادی کے حق میں 46 فیصد جبکہ مخالف میں 54 فیصد افراد ہیں۔ ایلیکس سیمنڈ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا اہم ہو گا کہ ریفرنڈم کا عمل رضامندی اور منظوری پر مبنی تھا اور سکاٹ لینڈ کی اکثریت نے اس وقت علیحدہ ملک بننے کے بارے میں طے نہیں کیا۔ وہ لوگوں کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں وہ تمام سکاٹ لینڈ سے کہتے ہیں کہ جمہوری فیصلے کو قبول کریں۔ ایلیکس سیمنڈ نے مرکزی جماعتوں سے کہا کہ وہ سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کو زیادہ بااختیار بنانے کے وعدے پر اچھی طرح سے عمل کریں برطانیہ سے آزادی کے حق میں مہم چلانے والی سکاٹش سیاسی جماعتوں میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنما نکولا نے بھی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر لوگوں کی طرح میں نے بھی سکاٹ لینڈ کی آزادی کی مہم میں پورے صمیم قلب کے ساتھ کام کیا تھا، مجھے بھی شدید مایوسی ہوئی۔ ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے باشندوں نے برطانیہ سے آزادی کے آپشن کو مسترد کردیا ہے۔ برطانوی وزےراعظم ڈےوڈ کےمرون نے کہا کہ سکاٹ لینڈ کے عوام کے اس فیصلے سے برطانیہ مزید مضبوط ہوگا، ریفرنڈم برطانیہ کی مضبوط جمہوریت کا مظہر ہے، عوام کے فیصلے سے خوشی ہے برطانیہ کا وفاق قائم رہا سب کو مل کر ترقی کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ اگر سکاٹ لینڈ کی عوام کی اکثریت ملکہ برطانیہ کے ساتھ رہنے کی مخالفت کر دیتی تو پھر 300 سال تک برطانیہ کا حصہ رہنے والا سکاٹ لینڈ دینا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی صورت میں وجود میں آ جاتا۔ 42 لاکھ 85 ہزار 323 ووٹر نے حصہ لیا، ٹرن آ¶ٹ توقعات سے زیادہ رہا۔ سکاٹ لینڈ میں 5579 پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ چاہتے تو ریفرنڈم کے انعقاد کو روک سکتے تھے، بڑے فیصلے ملتوی کرنے کی بجائے کرنے پڑتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے عوام کو ان کا جمہوری حق دیا گیا۔ برطانیہ کی بہتری اسی میں ہے سب مل کر کام کریں۔ سکاٹ لینڈ کو پارلیمنٹ میں مزید اختیارات دئیے جائیں گے۔ امریکی صدر اوباما، یورپی یونین نے سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کے نتائج پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے صدر مارٹن شلز نے کہا کہ سکاٹ لینڈ کے عوام نے برطانیہ سے آزادی کے خلاف فیصلہ دے کر یورپ کے دیگر خطوں میں خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو واضح اشارہ دیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے کہا کہ انہیں ریفرنڈم کے نتیجے سے خوشی ہوئی ہے۔ ان کے بقول اس نتیجے کے بعد برطانیہ اس اتحاد میں پہلے کی طرح اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ اس ریفرنڈم کے بعد جیتنے والوں میں خوشی اور ہارنے والوں میں غم کی ایک لہر دوڑ گئی۔بی بی سی کے مطابق اس کا مطلب فی الحال یہی ہے کہ سکاٹ لینڈ متحدہ برطانیہ کا لازمی جزو رہیگا تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ آنے والے ماہ و سال میں اس سوال پر دھواں دھار بحث جاری رہے گی کہ لندن سے مزید اختیارات کیسے سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کو ملیں گے۔ اب سکاٹ لینڈ کے حوالے سے ہونے والی بحث کا مرکزی نکتہ یہ ہوگا کہ برطانیہ کی مرکزی حکومت سکاٹ لینڈ کو اختیارات منتقل کرنے کے اپنے وعدوں پر کس قدر پورا اترے گی۔
سکاٹ لینڈ