پاکستان کے سویلین حکمران اپنی جماعتوں کو ذاتی جاگیر کی طرح چلاتے ہیں: بی بی سی
کراچی (بی بی سی) ساس کتنے ارمانوں سے سو گھروں میں تاک جھانک کے بعد اپنے کلوٹے بیٹے کے لیے چاند سی بہو ڈھونڈھ لاتی ہے اور اگلے ہی روز وہی بہو جب پہلا قدم حجلہِ عروسی سے باہر رکھتی ہے تو ساس کا سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے اور پھر فضا میں ایک ضعیف آہ گونجتی ہے ’ہائے کتنا بڑا دھوکا ہوا، جسے حور پری سمجھ کے لائی وہ تو میرے حق میں ڈائن نکلی....“ کسی دیسی ساس کی طرح پاکستانی سویلینز کو بھی ہر تین برس بعد ایک چاند سے چیف آف آرمی سٹاف کی تلاش کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ چار پانچ کو شارٹ لسٹ کیا جاتا ہے۔ ان کے مزاج و نفسیات، خاندانی پس منظر، سروس ریکارڈ، سیاسی و مذہبی جھکاو¿، ظاہری شخصیت سلیقہ، محکمہ جاتی شہرت وغیرہ کی ٹوہ لی جاتی ہے۔ مختلف رسمی و غیر رسمی ذرائع سے چھان پھٹک کروائی جاتی ہے۔ تب جا کے رشتہ بادلِ نخواستہ فائنل ہوتا ہے۔ چند دن ہنسی خوشی گذرتے ہیں اور پھر ڈویم ڈویا شروع ہوجاتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اگر اس تمثیلی گفتگو سے ہٹ کر دیکھا جائے تو تمام پاکستانی سویلین حکمرانوں کی مشکل یہ رہی ہے کہ ان کی سیاسی قوت کا محور پارٹی کے بجائے چونکہ ان کی ذات، خاندان اور نو رتنوں کا ٹولہ ہوتا ہے اور وہ پارٹی کے ادارے کو ذاتی جاگیر کے طور پر دیکھتے، برتتے ہیں۔ چنانچہ انہیں لاشعوری طور سے پکا یقین ہوتا ہے کہ باقی اداروں میں بھی جو شخص ٹاپ پر ہوتا ہے وہ اپنے ادارے کا مالکِ کل ہوتا ہے لہٰذا اگر ان اداروں کا سربراہ کوئی ایسا شخص ہو جس سے ان کی نبھ جائے تو سارے معاملات ٹھیک رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو ایک ادارے کے بجائے ایک وفادار یا آزاد خیال چیف جسٹس ( موافق یا مخالف ) کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ فوج کے بارے میں بھی ان کا عقیدہ ہے کہ اگر چیف مرضی کا ہو تو پوری فوج کو سوچ سمیت قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ بس یہی عقیدہ آگے چل کے بدعقیدگی پیدا کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ ہو کہ فوج، دونوں میں یونٹی آف کمانڈ ہوتی ہے۔ مگر سیاسی سلطانی کلچر کے برعکس چیف جسٹس ہو کہ چیف آف آرمی سٹاف دونوں اپنے اپنے اداروں میں فرسٹ امنگ ایکوئیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس برادر ججز کے بنا اور چیف آف آرمی سٹاف اپنے کور کمانڈرز اور پرنسپل سٹاف افسروں کے تعاون و مشاورت کے بغیر موثر ہو ہی نہیں سکتے۔ دونوں ادارے کسی سیٹھ کی ہٹی نہیں بلکہ انہیں ایک شیئر ہولڈنگ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی طرز پر چلایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں کسی ادارے کے لیے چاند سی وفادار بہو کی تلاش ایک بے معنی اور دل کو تسلی دینے والی مشق کے سوا کچھ نہیں۔ اداروں کو اداروں کی طرح چلنے دیا جائے اور ان سے بحیثیت ادارہ ہی معاملات رکھے جائیں۔ شیر کو آپ کتنا بھی سدھا لیں مگر وہ کیلے ہرگز نہیں کھائے گا۔گوشت ہی کھائے گا بھلے کتنا ہی لاغر ہو جائے....۔
بی بی سی