ایران کی توانائی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اسے اپنے جوہری پروگرام کو لگام دینا ہو گی: اوباما
اقوام متحدہ (نوائے وقت رپورٹ+ رائٹر+ اے ایف پی+ ایجنسیاں) امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ ایران کی توانائی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ ایران کو اپنا جوہری پروگرام پرُامن مقاصد کے لئے بنانے کا یقین دلانا ہو گا۔ اس حوالے سے اُسے یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے، اقتصادی پابندیوں سے بچنے کے لئے ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام کو لگام دینا ہو گی۔ ایران ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل کے لئے آگے بڑھے۔ چین کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ ایشیا پیسفک ممالک اصولوں کی پاسداری کریں اور علاقائی تنازعات پُرامن طریقے سے حل کریں۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہاکہ امریکہ نہ تو اسلام کے خلاف حالت جنگ میں ہے نہ ہی کبھی وہ ایسا کرے گا، اسلام امن کا درس دیتا ہے، دنیا کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو گا، موت کے سوداگروں کو انجام تک پہنچائیں گے، پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو داعش کے نظرئیے کو سختی سے مسترد کرنا ہوگا، عالمی برداری داعش کے خلاف مشترکہ مشن میں شریک ہو، داعش، القاعدہ یا بوکوحرام کے نظرئیے کو اگر مسلسل سامنے لایا جاتا رہے تو یہ اپنی موت مر جائیگا، عرب اور مسلم ممالک اپنے عوام خاص طور پر نوجوانوں میں موجود صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کریں، مسلم نوجوان تعلیم، تعمیر اور انسانی جانوں کی قدر کا درس دینے والی عظیم روایات رکھتے ہیں اس راستے سے ہٹنے کا کہنے والے ان روایات سے انحراف کررہے ہیں، دنیا کو ایبولاوائرس روکنے کے لئے وسیع ترکوششیں کرنے کی ضرورت ہے، امریکہ پرامن طاقت ہے اور رہے گا، روس نے یوکرائن سے امن معاہدہ اپنایا تو امریکی پابندیاں ختم کر دیں گے، امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششیں ترک نہیں کرے گا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما کا کہنا تھا کہ یوکرائن پر روس کی جارحیت کو روکنا ہو گا ، روسی جارحیت کسی صورت قبول نہیں، امریکہ نے خوف پر امید کو ترجیح دی ہے، شام اور عراق میں دہشت گردوں کی سفاکانہ کارروائیوں نے ہمیں اقدامات کرنے پر مجبور کیا، ہم مستقبل کو اپنی رسائی سے باہر نہیں دیکھتے بلکہ اسے بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن اور جنگ کے درمیان پھنس گئے، دنیا کے لوگ اپنے مسائل امن سے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن داعش کے خاتمے کیلئے موثر کارروائی کرنا ہو گی کیونکہ اس کا خاتمہ ضروری ہے پوری دنیا کو داعش کے خلاف متحد ہونا ہو گا۔ دنیا کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو گا، موت کے سوداگروں کو انجام تک پہنچائیں گے، پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو داعش کے نظرئیے کو سختی سے مسترد کرنا ہوگا، عالمی برداری داعش کے خلاف مشترکہ مشن میں شریک ہو، ایران ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل کے لئے آگے بڑھے، دنیا کو ایبولاوائرس کو روکنے کے لئے وسیع ترکوششیں کرنے کی ضرورت ہے، امریکہ پرامن طاقت ہے اور رہے گا، عرب اوراسلامی ممالک کو ترقی کرنی چاہئے مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی وجہ س انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے، انتہاپسندی نے مسلم دنیا کے متعدد حصوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، میں نے یہ واضح کیا ہے کہ امریکہ اپنی پوری خارجہ پالیسی کو دہشت گردی کے ردعمل کی بنیاد پر تشکیل نہیں دے گا ہم نے اس کی بجائے القاعدہ اوراس کے منسلک قوتوں کے خلاف بھرپور مہم شروع کی، ان کے رہنمائوں کو نشانہ بنایااورمحفوظ پناہ گاہوں میں چھپنے کی اجازت نہیں دی، اگراہم امریکہ اوراسلام کا ذکر کریں تویہاں کوئی ہم اوروہ نہیں یہاں صرف ہم ہیں کیونکہ کئی ملین مسلمان امریکی ہمارے ملک کا حصہ ہیں، ایسے نام نہاد مذہبی رہنمائوں سے اب کوئی رعائت نہیں برتی جانی چاہئے جو معصوم لوگوں کو صرف یہودی ،عیسائی یا مسلمان ہونے کی بناء پر نقصان پہنچانے کی بات کرتے ہیں، داعش ،القاعدہ یا بوکوحرام کے نظرئیے کو اگر مسلسل سامنے لایاجاتارہے تویہ اپنی موت مرجائیگا، مسلم معاشروں میں امن کے فروغ کے نئے فورم کو دیکھیں برطانیہ کے نوجوان مسلمانوں نے دہشت گردوں کے پراپیگنڈاکے جواب میں’’میرے نام پر نہیں ‘‘کی مہم چلائی اورکہاکہ داعش کسی جھوٹے مذہب اسلام کے پیچھے چھپ رہی ہے اسی طرح وسطی افریقی جمہوریہ میں عیسائی یا مسلمان رہنماء تشددکو مستردکرنے کے لیے متحد ہوگئے ہیں، مسلم طبقات کے درمیان تشددکی وجہ سے انسانوں کو بہت مشکلات کا سامناکرنا پڑا، عرب اورمسلم ممالک اپنے عوام خاص طورپر نوجوانوں میں موجود صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کریں، میں مسلم دنیا کے نوجوانوں سے براہ راست مخاطب ہو رہا ہوں آپ لوگ عظیم روایات رکھتے ہیں جو تعلیم کی حامی ہیں جہالت کے نہیں، تعمیر کا درس دیتی ہیں تباہی کا نہیں انسانی جان کی قدرکی حامل ہیں قتل کی نہیں آپ کو جو بھی اس راستے سے ہٹنے کاکہتے ہیں وہ روایات سے انحراف کررہے ہیں۔ امریکہ اسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششیں ترک نہیں کرے گا، مغربی کنارے اورغزہ میں سٹیٹس کو پائیدارنہیں، امریکی فوجی غیرملکی سرزمین پر قبضہ نہیں کریں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 24ستمبر کو شروع ہونے والا سالانہ اجلاس یکم اکتوبر تک جاری رہے گا۔ اجلاس میں 140سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت شرکت کر رہے ہیں۔ اجلاس کے دوران اسلامک سٹیٹ کی دہشت گردی، مغربی افریقی ممالک میں پھیلتا ہوا ایبولا وائرس اور ایران کے جوہری پروگرام جیسے موضوعات چھائے رہیں گے۔ جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹراشٹائن مائر کہتے ہیں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی سطح پر ایران کی نئی حکومت کے لئے مزید تعاون حاصل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان کی کوشش ہو گی کہ وہ اس عالمی اجلاس کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام مذاہب اور دنیا کے تمام خطوں کو یکجا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسلامک سٹیٹ سے لاحق خطرات کو بات چیت میں کلیدی اہمیت حاصل رہے گی۔ شٹائن مائر کے مطابق وہ آئی ایس اور مسلم عسکریت پسندی کے خلاف جاری کوششوں کو مزید منظم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس تناظر میں عراق کے کرد باغیوں کو جرمن اسلحے کی ترسیل کے معاملے پر بھی بحث و مباحثہ ہونے کی امید ہے۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کی ہیڈ ھرکونلی نے کہاکہ کرد باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کو برلن حکوت کی اہم ترین خارجہ پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ترجمان نے کہا کہ کیمرون اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ اسلامک سٹیٹ کے خلاف فضائی حملوں کے علاوہ اور کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی 26ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔