نئے فوجی جرنیل اور نئے آئی ایس آئی چیف
میرا ابتدائی رد عمل یہ تھا کہ فوج میں ترقی اور تقرری کا عمل انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔حالانکہ ایسی توقع کسی کو نہ تھی۔
اب میںنے دوبارہ اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے تو میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ یہ فیصلے جرات مندانہ بھی ہیں اور میرٹ کے اصولوں پر مبنی بھی۔ اور ہر افسر کی پیشہ ورانہ مہارت کے پیش نظر اس کی ترقی کا فیصلہ ہو اہے ا ور اسے اس کی صلاحیتوں اورتجربے کے پیش نظر نئی پوسٹنگ دی گئی ہے۔اور یہ معیار افواج پاکستان کا طرہ امتیاز ہے۔
تو پھر میںنے یہ کیوں کہا کہ ایسے خوش اسلوبی سے فیصلے کی توقع نہ تھی، اس کی وجہ وہ مخصوص ملکی ماحول اور ن لیگ کا مزاج ہے جس کی وجہ سے وہ صرف فوج کے ساتھ ہی نہیں،ہر ادارے سے ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار کرتی ہے۔عام طور پر ہر سول حکومت اپنے ڈھب کے افسروں کو آگے لاتی ہے۔ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم بھٹو نے آرمی چیف جنرل گل حسن سے دھوکے سے استعفی لیاا ور ان کی جگہ جنرل ٹکا خان کو مقرر کیا گیا، یہی ٹکا خاں تھے جنہوںنے مشرقی پاکستان میں اس فوجی آپریشن کی کمان کی تھی جس پر بھٹو نے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔یہی ٹکا خاں بعد میں بھٹو کے وزیر دفاع بنے اور آگے چل کرپیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی بنے اور اٹھاسی میں محترمہ بے نظیر نے انہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی گورنری کا منصب پیش کیا۔محترمہ بے نظیرنے ایک اور اختراع کی کہ آئی ایس آئی کے چیف کے منصب پر ایک ریٹائرڈ جنرل کلو کا تقرر کر دیا۔ محترمہ نے یہ تجویز بھی دی کہ کیوں نہ جہانگیر بدر کو ملک کا چیف جسٹس بنا دیا جائے۔
میاںنوازشریف پیچھے رہنے والے کہاں تھے ، انہوںنے بھی آئی ایس آئی کے سربراہ کا عہدہ ایک ریٹائرڈ جنرل جاوید ناصر کو پیش کر دیا، بعد میں انہیں ایک بار پھرا س عہدے کو پر کرنے کا موقع ملا تو انہوںنے پینل سے ہٹ کر اپنی مرضی سے جنرل ضیاالدین بٹ کو اس عہدے پر فائز کیا، انہی جنرل بٹ کو مشرف کی جگہ آرمی چیف بنانے کی کوشش بھی کی گئی جو ناکام ہو گئی اور نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ بھی ہو گیا۔
اگر پاکستان کے تمام سابق سپائی چیف مضحکہ خیز ہی تھے تو امریکی اور نیٹو فورسز کو شمالی وزیرستان سے ڈر کیوں لگتا تھا اور وہ افغانستان کے بے آب و گیاہ اور بنجر پہاڑوں میں کیا لینے اترے تھے اور اس قدر خواری ا ور خجل پنے سے کیوں بے دخل ہو رہے ہیں۔ عراق اور شام کے بارے میںکوئی سوال نہیں پوچھوں گا کیونکہ ان سوالوں پر پوری دنیا کاہاسہ نکل جاتا ہے۔اور ویت نام ، لاﺅس ، کمبوڈیا تو پرانی کہانیاں ہیں، بی بی سی کے حافظے سے محو ہو چکی ہوں گی۔
پاک فوج میں کوئی کسی کا لاڈلا نہیں ، یہاں آپ نے کسی کے منہ سے یہ نہیں سناہوگا کہ یہ میرا پندرہ سالہ دوست توقیر شاہ ہے جس کی میںنے سینے پر پتھر رکھ کر چھٹی کروائی ہے۔فوج ایک ایسا ادارہ ہے جس میں پیشہ ور افسروں اور جوانوں کی کہکشاں ہے۔ اس تابناک کہکشاں کے کسی ایک ستارے کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی ، نہ کبھی دی گئی ہے۔ فوج میں تربیت کا معیار ایسا ہے کہ اس میں ہر کوئی صیقل ہو جاتا ہے ،کسی کو بھی کسی ٹاسک کو انجام دینے کی ہدائت کی جاسکتی ہے۔اور اوپر کی سطح پر صرف چند ایک نے پہنچنا ہوتا ہے، زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ انہیںمادر وطن کی خدمت کا مزید موقع مل جاتا ہے۔
اسوقت ترقی پانے والے تمام جنرلز یکساں پیشہ ورانہ معیار کے ہیں اور وہ قوم اور ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں، یہ خدمت پھولوں کا تخت نہیں ،کانٹوں کی سیج ہے کہ ان کے سامنے ایک ایسا دشمن ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا، وہ بے چہرہ ہے، بے نام ہے، وہ ہماری اندرونی صفوںمیں گھسا ہوا ہے ا ور ہمارے بڑے بڑے مذہبی اور سیاسی لیڈر اس کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔کس کو یاد نہیںکہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر ہمارے وزیر داخلہ نے کیا ماتم نہیںکیا تھا۔ اور کون بھول سکتا ہے کہ ہم نے اپنی فوج کو یہ کہہ کر شہید ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ امریکی جنگ کے حلیف ہیں۔ مولا نافضل الرحمن نے فتوی دے دیا کہ امریکی نشانے سے مرنے ولا کتا بھی شہید ہوتا ہے ا ور منور حسن نے جو کچھ ارشاد فرما یا ، میں اس کی تکرار سے اپنا قلم غلاظت سے ا ٓلودہ نہیں کرنا چاہتا۔
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے چناﺅ کے لئے بہر حال ضروری اضافی تقاضوں کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے، وہ ایک ایسے ا دارے کا سربراہ ہوتا ہے جو قوم اور ملک کی آنکھ اور کان کا کام دیتا ہے۔جنرل رضوان اختر نے کراچی آپریشن میںپوری قوم سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، ابھی لاہور میں ایسی نسل موجود ہے جس نے میئر لاہور کے طور پر میاں اظہر کی بے لاگ کارکردگی دیکھی تھی اور جب انہوںنے شہر میں تجاوزات کے خلاف ا ٓپریشن کا آغاز کیا تھا تو انہوںنے پھر یہ نہیں دیکھا تھا کہ کو ئی کسی کا ماموں ہے یا بھانجا، انہوںنے آنکھیں بند کر کے سارے تھڑے مسمار کر دیئے تھے، اسی کارکردگی کے پیش نظر انہیں بعد میں گورنر پنجاب بھی بنایا گیا اور لا اینڈ آرڈر کی خصوصی ڈیوٹی دی گئی ۔اس آپریشن میں انہوںنے حکومتی پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے پالتو ڈاکووں کا صفایا کیا، جنرل رضوان نے بھی اسی بے لاگ طریقے سے کراچی میں آپریشن کیا اور اسی شہر بے لگام میں انہوںنے حکومتی رٹ قائم کر کے ہر خاص و عام سے دل کھول کر داد پائی۔
آئی ایس آئی میںنئے چیف کی تقرری سے کوئی بنیادی تبدیلی تو آنے سے رہی، الٹا افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا اور ضرب عضب کی وجہ سے اس کی ذمے داریوں میں اضافہ ہی متوقع ہے۔ یقین رکھئے اس ادارے نے کبھی ستو نہیں پئے، نہ یہ کبھی بھنگ کے نشے سے چور ہوا ہے۔یہ ادارہ حب ا لوطنی کے جذبات سے سرشار رہا ہے اور اسلامی روایات کا امین ثابت ہوا ہے۔جنرل رضوان اختر کے لئے ڈھیر ساری دعائیں۔