حضرت قاری شمس الدین قادری بندگی
صاحبزادہ شمس الدین قادری
برصغیر پاک و ہند میں تبلیغ اسلام کے لئے تمام سلاسل نے کارنامے انجام دئیے ہیں مگر اس معاملے میں سلسلہ قادریہ بلاشبہ دوسرے سلسلہ سے آگے ہے اسی سلسلہ قادریہ کی سلک مروادید کے گوہر تابندہ حضرت قاری شمس الدین قادری ہیں جن کی کاوشوں سے آگے چل کے ایک جہاں منور ہوا۔ آپ کی پیدائش 932ھ بمطابق 1523ء کو شہر بدخشاں میں ہوئی ۔آپ کے والد ماجد کا نام علیم الدین تھا ۔ آپ کا سلسلہ نسب والدہ ماجدہ کی طرف حضرت امام حسنؓ اور والد کی طرف سے حضرت امام حسینؓ سے ملتا ہے یوں آپ حسنی حسینی سید زادہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی اس زمانے کے لئے مروجہ علوم کے عالم تھے۔ یوں آپ کی بنیادی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور آپ کے پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا ان کے والد صاحب اپنے بیٹے کی تعلیم کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ اور دوسری طرف وہ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان حالات میں انہوں نے ایک مضبوط فیصلہ کیا جس نے حضرت شمس الدین کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی۔
اس زمانے میں کشمیر میں حضرت کمال الدین کی علمی درسگاہ کا دور دور تک بڑا چرچہ تھا۔ چنانچہ آپ کے والد محترم آپ کو کشمیرلے آئے اور آپ کو کمال الدین صاحب کے حوالے کر کے واپس چلے آئے۔ اس دوران آپ نے تقریباً سترہ سال تک استاد محترم کی خدمت کی اور تفسیر قرآن فقہ اور علم حدیث میں کمال حاصل کیا اسی زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کرامات کا ظہور شروع ہو گیا تھا۔
حصول تعلیم کے بعد آپ نے بلاد اسلامیہ کی سیاحت کی مکہ مکرمہ گئے حج بیت اللہ مدینہ منورہ میں روضہ رسول ؐپر حاضری دی اور مختلف مقامات پر مزارات پر معتکف ہوئے۔ تقریباً ایک سال بعد بغداد شریف تشریف لائے اور قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی کے دربار گوہر بار پر حاضری دی اور یہاں پانچ سال تک قیام کیا۔ دوران قیام آپ کا معمول دن کو تلاوت قرآن اور رات کو نوافل کی ادائیگی تھا۔ پھر ایک روایت کے مطابق آپ کو شیخ عبدالقادر شاہ جیلانی کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ لاہور تشریف لے جائیں اور وہاں پر تبلیغ دین کا کام کریں۔
برصغیر میں اس وقت شہنشاہ اکبر کی حکومت تھی اور بادشاہ کی اسلام دشمنی کی وجہ سے اسلامی تہذیب کے آثار تک مٹنے شروع ہو گئے تھے۔ ابوالفضل اور فیضی اکبر کے دماغ پر چھائے ہوئے تھے اور ان کے مشورے ہی دین اکبری کی بنیاد بنے۔ ان مشکل حالات میں قاری شمس الدین کو لاہور جانے کا حکم ملا۔ لاہور پہنچنے پر آپ نے مزار مبارک داتا علی ہجویریؒ کو اپنے قیام کے لئے منتخب کیا۔ یہاں پر آپ کی ملاقات وقت کے ایک نامور بزرگ شاہ ابو اسحاق سے ہوئی جو کہ حضرت داؤد بندگی شیر گڑھ والوں کے خلیفہ تھے اور مزنگ میں رہاش پذیر تھے۔ آپ ان کے دست حق پرست پر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے بعد میں واقعات نے ثابت کیا کہ شیخ کامل نے طالب صادق پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ایک روایت کے مطابق جب آپ حج ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے بڑی خوش الحانی سے تلاوت قرآن فرماتے تو وہاں سے آپ کو قاری کا خطاب ملا۔
آپ کے مزار مبارک کے پاس ہی ایک کنواں تھا روایت ہے کہ جب کنواں کھدوایا گیا جب پانی نکل آیا تو آپ نے وضو فرمایا اور وضو کا بچایا ہوا پانی کنوئیں میں ڈال دیا اور ارشاد فرمایا کہ کنویں کا پانی جو بیمار استعمال کرے گا صحت یاب ہو جائے گا۔ چنانچہ دور دراز سے لوگ بیماری کی حالت میں آتے اس کنوئیں کے پانی سے غسل کرتے اور صحت یاب ہو کر واپس جاتے ۔ یہ کنواں 1965ء تک صحیح حالت میں تھا۔ بعد میںا س کا پانی کم ہوتے ہوتے خشک ہو گیا۔
جس شخص کو قرآن پاک حفظ نہ ہوتا ہو وہ آپ کے مزار مبارک کے پاس بیٹھ کر تلاوت قرآن کرے۔ جتنا پڑے گا یاد ہو جائے گا۔
شہنشاہ جہانگیر جب آخری عمر میں بہت زیادہ بیمار ہوا تو اس نے دربار پر حاضری دی اور اپنی صحت کے لئے دعا گو ہوا تو مزار سے آواز آئی اے جہانگیر اپنی صحت کے علاوہ کچھ اور مانگو جہانگیر ناامید ہو کر واپس چلا گیا اور اس نے سرینگر کا قصد کیا وہاں پہنچتے ہی وہ وفات پا گیا۔
10 رجب المرجب 1021ھ بمطابق 1412ء کو رات گئے آپ کی طبیعت ناساز ہوئی اس کے باوجود نماز فجر باجماعت ادا کی اس کے بعداپنے حجرہ شریف میں تشریف لے گئے اور مریدین کووصیت کی کہ مجھے میرے حجرہ میں ہی دفن کرنا اور میرے بعد لوگوں کی اس طرح خدمت کرتے رہنا اس کے بعدآپ نے کلمہ پاک پڑھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو چاند کی گیارہ تاریخ تھی اس کی وجہ غوث الاعظم سے آپ کی عقیدت و محبت تھی آپ کے انتقال کی خبر جلد ہی پورے شہر میں پھیل گئی اور لاہور سوگوارہو گیا۔
انتقال کی خبر سن کر حضرت میاں میر قادری حضرت الیشاں نقشبندی حضرت شاہ ابوالمعالیٰ قادری حضرت شاہ چراغ ‘ حضرت طاہر بندگی حضرت نعمت اللہ قادری جیسے جلیل القدر بزرگ آپ کی آخری رسوم کے لئے تشریف لائے آپ کو آپ کے حجرہ شریف میں ہی دفن کیا گیا۔ بعدمیں شہزادہ شاہ جہاں نے اپنے زیر نگرانی ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا آپ کا مزار آج بھی ہر خاص و عام کے لئے امیدوں کا سرچشمہ ہے جہاں لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور ان کے وسیلے سے پروردگار سے اپنے دامن امید بھرتے ہیں۔ آپ کا سالانہ عرس اس دفعہ بھی مورخہ 28-27-26 ستمبر بروز جمعہ ہفتہ اتوار کو آپ کے مزار انور پر بمقام گاف روڈ جی او آر میں منایا جائے گا۔