’’خبردار آگے باغی کا سپیڈ بریکیر ہے!‘‘
معلوم تاریخ کے سب سے بڑے سائنسدان سے کسی نے پوچھا کہ ’’عظیم سائنسدان کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ ایجادات تک کیسے پہنچا جاتا ہے؟ اور مختلف دریافتیں کیسے سائنسدانوں کے ہاتھ لگتی ہیں؟‘‘ سوال سُن کر گھنگھریالی لٹوں والا آئین سٹائن گویا ہوا ’’اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ عظیم سائنسدان ذہانت کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ جی نہیں! عظیم سائنسدان اپنے کردار سے جنم لیتے ہیں، کسی شخص کا کردار ہی اُسے انسان سے اشرف المخلوقات بناتا ہے۔ کردار انسان کی ذہانت سے کہیں بالا تر ہوتا ہے، انسانی کردارایک درخت ہے جبکہ اُس کا رویہ اُسکے سایے کی طرح ہوتا ہے، اگر درخت نہ ہو تو اس کا سایہ بھی نہ ہو، لیکن اس درخت کی جڑیں دراصل صبر ہے، اگر جڑیں نہ ہوں تو درخت بھی نہ ہو اور درخت کا سایہ بھی نہ ہو۔ یہ جڑیں نظر نہیں آتیں، لیکن سارا درخت انہی جڑوں کے سہارے پر قائم ہوتا ہے۔‘‘ لٹکی مونچھوں والا بوڑھا یہودی سائنسدان ذرا سے توقف کے بعد پھر بولا ’’سائنس کی ساری ترقی بھی سائنسدان کے صبر کی مرہون منت ہے، اگر کہیں سائنسدان کا صبر ختم ہوگیا تو سمجھیں کہ اگلے لمحہ ہونے ولا معجزہ (سائنسی ایجاد یا دریافت کا موقع بھی) ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘
ایک عملی سائنس ہی کیا پولیٹیکل سائنس کے نتائج بھی ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ کے صبر کی مرہون منت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کو ہی لے لیں۔ رونالڈ ریگن چند دن کم ستر برس کی عمر میں امریکہ کے صدر بنے۔ جیمز بوکانن چھیاسٹھ سال کو پہنچنے والے تھے جب انہیں وائٹ ہاؤس کا مکین بننے کا اعزاز حاصل ہوا، ولیم ہینری ہیری سن اپنی اڑسٹھویں سالگرہ منا چکے تھے، جب انہیں امریکہ کی قیادت نصیب ہوئی اور تو اور! جارج واشنگٹن کو جب امریکی قیادت نصیب ہوئی تو وہ ساٹھ کے پیٹے میں داخل ہو رہے تھے۔ اس بڑھاپے میں اقتدار حاصل کرنیوالے اِن امریکی صدور کو کبھی قلق نہ ہوا کہ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کی کوئی کوشش بھرپور جوانی میں کیوں نہ کی؟نہ ہی ان میں سے کسی نے بھی شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ قیام پاکستان بھی کسی شارٹ کٹ کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ وطن عزیز پاکستان جنوبی ایشیا میں آزادی کی سب سے بڑی تحریک کی کامیابی کے بعد حاصل کیا گیا۔ کئی دہائیوں کی اس تحریک کے دوران لاکھوںجانوںکی قربانیاں دی گئیں۔ بلاشبہ اس تحریک کی باگ ڈور جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے قانون پسند قائداعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں میں تھی۔ قائد جیسا قانون پسندجنوبی ایشیا کی دھرتی پر اس سے پہلے پیدا ہوا نہ بعد میں آسمان نے دیکھا۔ تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ہر جدوجہد میں منزل کا حصول ہی آخری اور انتہائی کامیابی ہوتی تو ہر بڑا رہنما برسوں کی انتھک محنت کی بجائے اپنی منزل کو مہینوں کی ’’اچھل کود‘‘ کے بعد ہی حاصل کر لیتا، لیکن تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد علی جناح نے بھی کبھی ’’شارٹ کٹس‘‘ کو پسند نہ کیا کیونکہ محض منزل کا حصول ہی انکے ذہن میں آخری مقصد نہ تھا۔ اگر قائد شارٹ کٹس پر یقین رکھنے والے انسان ہوتے تو انہوں نے جو کچھ ستر برس کی عمر میں حاصل کیا، وہ اسے اپنی زندگی کی ابتدائی تیس بہاروں میں حاصل کر چکے ہوتے۔بنیادی طور پر ہم زندگی کے ہر شعبے میں ہمہ وقت کامیابی کے پیچھے بھاگنے والے لوگ ہیں اور اس دوڑ میں ہم متوازن کامیابی کیلئے ایمانداری، کردار، جہد مسلسل، کام کے ساتھ رغبت، وفاداری اوراپنے کا م پر ایمان جیسے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں؟کیا ہم اپنے کام کے ساتھ ایماندار ہوتے ہیں؟کیا ہمیں واقعی کامیابی کی چاہت بھی ہوتی ہے؟ شاید ایسا نہیں ہے، کیونکہ ہم کامیابی تو چاہتے ہیں، لیکن کامیابی کیلئے لازمی عناصر اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے۔ ہم لوگ جائز ناجائز طریقے سے ہر حال میں وِکٹری سٹینڈ پر پوزیشن حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ وِکٹری سٹینڈ پر ہر حال میں پوزیشن جمائے رکھنے کے چکر میں ہم کردار کو ہی سب سے زیادہ نظر انداز کرتے ہیں اور کردار کا پیمانہ انسان کے اندر صبر کا مادہ ہے۔ یہ دیکھنے کیلئے کسی شخص کا کردار کیسا ہے، اس کی برداشت، صبر اور تحمل کی پیمائش کرنی ہو گی۔
قارئین کرام ! جمہوریت تو نام ہی صبر، برداشت اور تحمل کا ہے لیکن جو کچھ اپنے دھرنوں اور حالیہ احتجاجی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کرنے جا رہے ہیں، ایسا تو آمریتوں اور شاہی نظام میں بھی نہیں ہوتا۔ عمران خان کے پیروکار آج کل اپنے لیڈر کو قائداعظم سے بھی بڑا رہنما بنا کر پیش کر رہے ہیں، اسی لیے شاید عمران خان کو ایک جمہوریت پسند رہنما قائداعظم کی مثال بھی پسند نہیں، جن کی محنت اکہتر برس کی عمر میں ثمر آور ثابت ہوئی اور وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ قائداعظم نے شارٹ کٹ مارنے کی بجائے محنت کے ساتھ ساتھ انتظار بھی کیا اور پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ نوے سالہ سعودی شاہ عبداللہ نے بھی اپنی باری کیلئے پچاس سال انتظار کیا اور 2005ء میں اکاسی سال کی عمر میں سعودی عرب کے حکمران بنے۔ اگرشاہ عبداللہ نے اِس طرح کی ’’مہم جوئی‘‘ کرنی ہوتی تو شہزادہ عبداللہ تیس برس کی عمر میں پچاس کی دہائی میں کہیں جدہ یا ریاض میں ایوان اقتدار کا محاصرہ کر کے بیٹھے ہوتے! خان صاحب! آپ کی تو ابھی عمر ہی کیا؟ ابھی تو آپکے دل میں دوسری مرتبہ سہرہ سجانے کے خواب مچل رہے ہیں، پھر اقتدار کیلئے کیوں آپ شارٹ کٹ کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں؟ کاش کوئی آپ کو بتائے کہ صبر ، تحمل اور برداشت کا کلچر اور کردار پیدا کریں توہی منزل مقصود اور گوہر مقصود ہاتھ لگتا ہے، لیکن اگر شارٹ کٹ کے چکروں میں پڑیں تو پھر راستے میں ’’لندن پلان‘‘ جیسے پڑاؤ آتے ہیں، جہاں سے واپسی کے راستے میں جاوید ہاشمی جیسے سپیڈ بریکر پڑتے ہیں۔ اگر کوئی باغی جیسے سپیڈ بریکر کو دیکھ کر بھی اپنی سپیڈ کم نہ کرے تو منہ کے بل گرنے کے سوال اس کے مقدر میں بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟ افسوس لندن پلان کا راستہ پکڑنے والے عمران خان کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ ’’آہستہ چلیں،خبردار! آگے باغی کا سپیڈ بریکر ہے!‘‘