• news

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

ڈاکٹر طاہر القادری صاحب غریبوں اور مظلوموں کا تذکرہ کرتے ہیں تو میرے بچے میری طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں اس میں یہ رمز پنہاں ہے کہ میرے بچوں کا والد یعنی میں بقلم خود ایک قلم کار اور معروف معنوں میں ادیب ہوں۔ پریم چند نے اپنے دور میں ’’ادیب کی عزت‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ قلم بند کیا تھا۔ آج کے دور میں جب میں یہ افسانہ فرسٹ ائیر کے طلبہ کو پڑھاتا ہوں تو اس کی زیادہ تشریح کرنے سے گریز ہی کرتا ہوں۔ اس افسانے کو پڑھاتے ہوئے ہمارے ادیب شاعر دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کے مشترکہ دوست معروف شاعر و نقاد پروفیسر ظفر الحق چشتی صاحب نے شاید جان بوجھ کر صرف ہمارے لئے اس افسانے کا انتخاب کیا ہے۔ حالانکہ ظفر الحق چشتی نے ہم سب کی خیر خواہی کے حوالے سے اس افسانے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ افسانہ ہمارے آج کے معاشرے کی سچی اور کھری تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ میں اس افسانے کا ایک کردار ہوں۔ مجھے کئی برسوں سے لکھنے کا مرض لاحق ہے اور میں ’’ادیب کی عزت‘‘ کے ہیرو کی طرح عید کے دن بھی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جہاں تک استحصال کا تعلق ہے تو ہماری حکومتیں مزدوروں، کلرکوں اور دیگر چھوٹے ملازموں کی جو تنخواہ مقرر کرتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ یہ مخلوقات اپنی اپنی تنخواہ میں ایک مہینہ گزار کر دکھا دیں۔ ملازمین کا استحصال حکومتیں ہی نہیں کرتیں۔ اس میں ہمارے کاروباری طبقے کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ تیس تیس چالیس چالیس سال پرانے ملازم کی تنخواہ بارہ یا تیرہ ہزار ہے۔ کاروباری طبقہ اپنے لئے ساری آسائشیں چاہتا ہے لیکن اپنے ملازمین کو ریلیف دینے کو تیار نہیں ہے۔ استحصال کی ایک بڑی مثال اشاعتی اداروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ادبی کتابیں روزانہ شائع ہوتی ہیں۔ لیکن کسی ادیب شاعر سے پوچھیں کہ اسے رائلٹی کتنی ملتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ ایک مرتبہ ایک محفل میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے بتایا کہ ایک دن وہ اپنے پبلشر سے ملنے گئے۔ انہوں نے رائلٹی کا تقاضا بھی نہ کیا لیکن پبلشر نے آنسوئوں کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ پبلشر کے آنسو بہانے کا مقصد یہ تھا کہ کاروبار بہت مندا جا رہا ہے۔ قاسمی صاحب نے اسے تسلی دی اور اس دکھ میں چائے بھی نہ پی۔ ہمارے ہاں ادیبوں شاعروں کو خدا جانے رائلٹی ملنا کب شروع ہوگی؟ ادبی کتابوں کے ساتھ ساتھ درسی کتب کی رائلٹی کے حوالے سے بھی مصنفین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اردو بازار میں ایک ادارہ ایسا ہے جہاں اس کے مصنف کو نہ صرف رائلٹی ملتی ہے بلکہ اس کی عزت و توقیر کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ یہ ملک کا نامور ادارہ ’’علمی کتاب خانہ‘‘ ہے۔ اس ادارے کے مالک اور مہتمم محترم چودھری جاوید اقبال ہیں اس ادارے بانی حاجی سردار محمد مرحوم و مغفور تھے۔ حمزہ شفیق صاحب نے ہمیں بتایا کہ حاجی سردار صاحب میڈیکل کے سٹوڈنٹ تھے۔ حاجی صاحب کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اچھی سے اچھی کتاب کے حصول کے لئے مصنف کی امیدوں سے بھی زیادہ معاوضہ دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اس کے علاوہ حاجی صاحب مساجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اب بھی کئی مساجد کے اخراجات ان کے نام سے دیئے جاتے ہیں علمی کتاب خانہ چودھری جاوید اقبال اور چودھری پرویز صاحب ان کے فرزندان اور ملازمین چلاتے ہیں چودھری جاوید اقبال کی انسان دوستی مثالی ہے۔ ان کی محفل میں پروفیسر حضرات، ادیب شاعر، چودھری خلیل صاحب، پروفیسر غوری صاحب، لیاقت صاحب، مغل صاحب اور فرید صاحب روزانہ بیٹھتے ہیں پرتکلف چائے چلتی ہے۔ موسمی پھلوں کا دور بھی چلتا ہے چودھری جاوید اقبال اپنے مصنفین کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اچھی سے اچھی کتاب کے لئے معاوضے کی پروا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ادارے کی شائع کردہ کتابیں ملک کے طول و عرض میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں کالجز میں علمی کتاب خانے کی کتابیں بے حد مقبول ہیں اور طلبہ و طالبات کو ان کے امتحانات میں اعلیٰ سے اعلیٰ نمبر دلاتی ہیں چودھری جاوید اقبال صاحب کو اللہ تبارک تعالیٰ ہمیشہ شادو آباد رکھے۔ آمین!

ای پیپر-دی نیشن